آتش بدہن دین بیزاروں کے نام


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

خواتین و حضرات، مانا کہ آپ خدا کو نہیں مانتے۔ مذہب آپ کو دھوکہ لگتا ہے۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ ان بے شمار لوگوں کی دل آزاری پر اتر آئیں جن کا اعتقاد خدا پر ہے اور جو مذہب کو اپنی زندگی کا اہم ترین حصہ قرار دیتے ہیں؟ کسی شخص سے گفتگو میں اس کی دل آزاری سے گریز کرنا تو آپ بھی درست جانتے ہوں گے۔ کسی سے ملتے ہی اس پر دشنام طرازی کرنے کو آپ مناسب نہیں جانتے ہوں گے۔ نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود آپ اس شخص کے احترام میں اس کے عزیز و اقربا کو فحش گفتگو کا نشانہ بنانا آپ کو ٹھیک نہیں لگتا ہو گا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپ دوسرے کے لیے محترم شخصیات کے بارے میں برے الفاظ استعمال کرتے ہوئے ہچکچاتے نہیں ہیں؟

اگر کوئی ملنے والا آپ کے ان محترم و عزیز افراد کے بارے میں برے الفاظ استعمال کرے جو آپ کو بہت پیارے ہیں، تو آپ کو اچھا نہیں لگے گا۔ تو پھر ایسا کیا ہے کہ آپ ان شخصیات کے بارے میں برے الفاظ استعمال کرنے سے نہیں کتراتے ہیں جو بیشتر پاکستانیوں کے نزدیک اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ پیارے ہیں؟ کیا آپ صرف ان کو دکھ دینے کی نیت سے ہی ایسا کرتے ہیں؟ کیا یہ رویہ اخلاقی طور پر درست کہلائے گا؟ کیا آپ اس کے اہل نہیں ہیں کہ اپنی بات ایک مہذب پیرائے میں بیان کر سکیں؟

ممکن ہے کہ آپ کو مذہب کی سخت گیر تشریح کرنے والوں نے بہت ستایا ہو۔ ممکن ہے کہ ان کی وجہ سے آپ کو اپنی زندگی اجیرن لگتی ہو۔ ممکن ہے کہ آپ مذہب کے ہاتھوں پریشان ہوں۔ ممکن ہے کہ داعش جیسے گروہوں کے مظالم دیکھ کر آپ ہول جاتے ہوں اور ڈرتے ہوں کہ سب مسلمان ایسے نہ ہو جائیں۔ لیکن ایسے انتہا پسند مسلمان کتنے ہیں؟ آپ کی دل آزاری عام مسلمانوں کو داعش کی طرف دھکیلے گی، کیا آپ یہی چاہتے ہیں؟ انسانیت کے احترام کے ناطے ہی آپ کو ان لوگوں کا خیال کرنا چاہیے جو کہ مذہب کو محترم جانتے ہیں۔ اخلاقی تقاضا تو یہی ہے کہ ان کے احترام میں ایسی بات نہ کی جائے جس سے ان کا دل دکھے۔ جب انسان کہیں مل بیٹھتے ہیں تو تہذیب یہی ہوتی ہے کہ کسی کا دل دکھانے والے بات نہ کی جائے۔

ٹھیک ہے کہ آپ کا عقیدہ یوم آخرت پر نہیں ہے اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ مرنے کے بعد حساب کتاب دینا ہو گا۔ آپ سوچتے ہیں کہ زندگی بس ایسی چیز ہے جیسے بیٹری والا کھلونا ہوتا ہے، بیٹری ختم ہوئی تو کھلونا بے جان ہو گیا۔ آپ اپنی سوچ پر قائم رہیں اور ہم اپنی پر قائم رہتے ہیں۔ بعد از مرگ حقیقت سامنے آ جائے گی کہ زندگی میں تو اس امر کا فیصلہ ممکن نہیں ہے۔ ہزاروں سال سے ملحد اور مذہبی افراد اس بے نتیجہ بحث میں الجھے ہوئے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو حتمی طور پر قائل کرنے سے قاصر ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ سے بحث کر کے آپ کو قائل کریں گے کیونکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ہدایت دینا صرف ہمارے اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ ہمیں توہمات میں مبتلا افراد سمجھتے ہیں۔ ہم دونوں کے لیے اس زندگی میں ایک دوسرے کو قائل کرنا ممکن نہیں ہے کہ کون وہم کا شکار ہے اور کون گمراہی کا۔

تو بہتر یہی ہے کہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے خوشگوار انداز میں مکالمہ کیا جائے۔ یہ سوچیں کہ ممکن ہے کہ آپ کی با اخلاق انداز میں کی جانے والی بات کا اثر ہم پر ہو جائے، ممکن ہے کہ اچھے انداز میں کی گئی ہماری کوئی بات آپ کے دل کو اچھی لگ جائے۔ یا ممکن ہے کہ ہم دونوں تاحیات ایسے ہی رہیں جیسے کہ ہیں، لیکن جب تک ہم دونوں ہیں، اس وقت تک تو ایک دوسرے سے اچھا سلوک کریں۔ سخت گیر مذہبی شخص کی دشنام طرازی دیکھ کر آپ اس کے بارے میں جو تاثر قائم کرتے ہیں، یہ سوچ لیں کہ آپ کی گستاخانہ گفتگو سے اس سے کہیں زیادہ برا تاثر آپ کی شخصیت کے بارے میں بھِی قائم ہوتا ہے۔

مانا کہ آپ مذہب کو نہیں مانتے ہیں۔ مگر کیا آپ انسانیت کو بھی نہیں مانتے ہیں؟ گستاخیاں اور دل آزاریاں کر کے فتنہ پھیلانے اور تلخیاں پیدا کرنے میں کیا فائدہ ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ جیو اور جینے دو۔ تو جناب، جئیں اور دوسروں کو بھی سکون سے جینے دیں۔

اگلے مضمون میں ان لوگوں سے بات ہو گی جو مذہب کے علمبردار بن کر دشنام طرازی پر کمر بستہ رہتے ہیں اور محض اپنی اس روش سے کئی لوگوں کو مذہب سے دور دھکیلنے کا سبب بنتے ہیں۔
دوسرا حصہ
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments