آزادکشمیر الیکشن : راجگان اتحاد یا جماعتوں کا اشتراک


\"irshadگزشتہ دوہفتوں میں آزادکشمیر میں دو سیاسی اتحاد تشکیل پائے۔ نون لیگ نے سردار خالد ابراہیم خان کی جموں وکشمیر کے ساتھ اتحاد اورجماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی۔ مبصرین نون لیگ اورجماعت اسلامی کے اشتراک کو راجگان کا اتحاد بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ خیبر پختون خوا میں جماعت اسلامی تحریک انصاف اور آزاد کشمیر میں نون لیگ کے ساتھ اتحاد چہ معنی دارد!

دوسری طرف مسلم کانفرنس اورتحریک انصاف نے بھی الیکشن اتحاد کیا اور مشترکہ امیدواروں کھڑے کر دیئے ہیں۔ اب یہ جماعتیں کندھے سے کندھا ملا کر الیکشن میں معرکہ آرائی کرنے جا رہی ہیں۔

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے حامی قلمکاروں اور فعال طبقات کو یہ اتحاد ایک آنکھ نہیں بہاتا کیونکہ وہ سیاست کو سیاہ اور سفید کی عینک سے دیکھنے کےعادی ہیں۔ تبدیلی اور کلی تبدیلی کے ان علمبرداروں سے عرض ہے کہ جب الیکشن کا معرکہ برپا ہوتا ہے تو روایتی سیاست کے اطوار بدل جاتے ہیں۔ زمینی حقائق کو نظرانداز کرنے والے تاریخ کے کوڑادان کی نذر ہو جاتے ہیں۔ حقائق کو مدنظر رکھ کر سیاسی حکمت عملی مرتب کرنے والے غالب آ جاتے ہیں۔

جماعت اسلامی نے بھی حقائق کو مدنظر رکھ کر بہترین سودا بازی کی۔ عبدالرشید ترابی جو اسی کی دہائی سے سیاست میں سرگرم ہیں۔ ایک جہاندیدہ اور معتدل مزاج شخصیت ہیں گزشتہ کئی انتخابات میں بھرپور مالی وسائل اور سیاسی طاقت استعمال کرنےکے باوجود الیکشن جیت نہ سکے۔ گزشتہ الیکشنز میں جماعت نے دیگر نشستوں پر بھی امیدوار کھڑے کیے لیکن قسمت کی دیوی مہربان نہ ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی اور تعلیمی شعبے میں بے پناہ خدمات کے باوجود جماعت اسلامی کوعوامی پذیرائی نہیں مل سکی۔ اس کی وجوہات پر گفتگو کا یہ محل نہیں۔ اکیس جولائی کو ہونے والے الیکشن میں جماعت اسلامی کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اکیلی میدان میں کود پڑتی اور بے نیل مرام گھر لوٹ جاتی یا پھر اپنا وزن کسی بڑی جماعت کے پلڑے میں ڈالتی اور اس کےاشتراک سے اسمبلی میں پہنچ جائے۔ جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت نےعملیت پسندی کا مظاہرہ کیا اور نون لیگ سے جو کچھ منوایا وہ اس کے حقیقی حجم اور ووٹ بینک سے کم نہیں۔

عملی سیاست کے تقاضے بڑے بے رحم ہوتے ہیں۔ وہاں جذبات نہیں بلکہ نتائج اور ان کے اثرات پر نگاہ مرکوز کی جاتی ہے۔ اگر عبدالرشید ترابی الیکشن لڑے بنا نون لیگ کی حمایت سے اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں تو اس میں حرج کیا ہے؟

 نون لیگ کو اس اتحاد کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ آزادکشمیر میں سیاسی تنہائی سے باہر نکل آئی ہے۔ عبدالرشید ترابی اور سردار خالد ابراہیم خان کی موجودگی میں راجہ فاروق حیدر خان‘ جو متوقع وزیراعظم ہیں‘ کی پوزینشن زیادہ مضبوط نظر آتی ہے۔ انہیں عام شہریوں کا زیادہ اعتماد حاصل ہوگا۔ وہ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کے تابڑتوڑ حملوں کا کامیابی سے دفاع کر سکیں گے۔ علاوہ ازیں راجہ فاروق حیدر کی اپنی نشست بھی زیادہ محفوظ ہوگئی ہے جہاں انہیں جماعت اسلامی کے امیدوار کی صورت میں کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ اسی طرح مشتاق منہاس کو بھی عبدالرشید ترابی کے الیکشن نہ لڑنے کا فائدہ ملنے کے روشن امکانات ہیں۔ مشتاق منہاس نے گزشتہ چند ماہ میں مسلسل محنت اور سیاسی ذہانت سے وسطی باغ میں اپنی پوزیشن خاصی مضبوط کر لی ہے۔ انہیں وزیراعظم نواز شریف کا امیدوار سمجھا جاتا ہے۔

جہاں تک مسلم کانفرنس اور تحریک انصاف کے اتحاد کا تعلق ہےاس پر بھی بہت سے احباب جزبز ہورہے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی عملیت پسندی کا ایک اظہار ہے۔ اگر یہ دونوں جماعتیں اتحاد نہ کرتیں تو ان کی جزوی کامیابی کے امکانات بھی نہیں تھے۔ اب ان کی نشستوں کی تعداد ہی نہیں بڑھے گی بلکہ ان کی سودے بازی کی پوزیشن میں بھی نمایاں اضافہ ہو گیا ہے۔ سردار عتیق اور برسٹرسلطان کے پراعتماد چہروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ طاقتیں انہیں بھی تھپکی دے رہی ہیں تاکہ نون لیگ کو ایک حساب کتاب میں رکھاجا سکے۔

سیاست یا سیاستدانوں کی زندگی کا نقطہ عروج الیکشن کے مثبت نتائج ہوتے ہیں۔ پارٹیوں اور گھاگ سیاستدانوں کی حکمت عملی رائے عامہ کو اپنا ہمنوا بنانے کے گرد گھومتی ہے۔ کامیابی کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے اسمبلی میں کتنے نمبر ہیں۔ سیاست آخر میں نمبر گیم ہی ہوتی ہے ۔ اسی لیے اقبال نے کہا ھا؎

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں‘تولا  نہیں کرتے

سیاست کے نباض کہتے ہیں کہ آپ کو معروضی صورت حال یعنی درپیش حالات میں سیاسی حکمت عملی بنانا ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی نون لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کرتی تو اسے کتنی نشستیں ملتیں؟اس کا جواب کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی سے اشتراک نہ کرنے کی صورت میں خدشہ تھا کہ راجہ فاروق حیدر اور مشتاق منہاس اپنی نشستیں بھی کھوجاتے۔ سردار خالد ابراہیم خان نون لیگ سے اتحاد کی صورت میں ممکن ہے کہ صدر آزادکشمیر بن جائیں دوسری صورت میں راولاکوٹ کی دونوں نشستیں ہارجانے کا امکان تھا۔ ظاہر ہے کہ نون لیگ نے خالد ابراہیم کی محبت میں یہ نشستیں نہیں چھوڑی۔ اگرنون لیگ اپنے امیدوار لاتی تو وہ چار پانچ ہزار ووٹ بھی نہ لے پاتے۔

ابھی تک جن جماعتوں کے انتخابی منشور سامنے آئے ہیں ان میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے تاہم تحریک انصاف نے منشور پر کافی محنت کی ہےجس کی اسے داد دی جانی چاہیے۔ باقی جماعتوں نے اس طرف کوئی زیادہ دھیان نہیں دیا۔ پرانے نعروں، دعوؤں اور شخصیات پر ہی کام چلایا جارہا ہے۔

اگلے چند ہفتوں میں الیکشن مہم کوئی نئی کروٹ بھی لے سکتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی حالات کے آزادکشمیر کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اور عمران خان کووزیراعظم چودھری عبدالمجید اور برسٹرسلطان محمود چودھری مسلسل مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر وفاقی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں کوئی ’’دھرنا‘‘ لگ جائے تو نون لیگ کی انتخابی مہم ماند پڑھ سکتی ہے۔ لوگ کا رجحان دوسری جماعتوں کی طرف پھر سکتا ہے۔

علامہ طاہر القادری بھی میدان میں اتر چکے ہیں۔ جون کی گرمی اور رمضان المبارک کے باوجود احتجاج کی لہر اٹھارہے ہیں۔ دھرنا لگ گیا تو پھر صورت حال کوئی نئی کروٹ بھی لے سکتی ہے۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments