بلوچستان کی نصابی کتابوں کا مختصرجائزہ



قومیں تب تک ترقی نہیں کرسکتیں جب تک کے علم کے ہتھیار سے لیس نہ ہوں. دنیا میں سب سے مضبوط اور طاقت ور ہتھیار قلم اور کتاب کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتے. جن قوموں نے قلم اور کتاب کا ہتھیار یعنی علم کا سہارا لیا، آج وہ خوش حال ہوگئے اور آج وہ پہلی دنیا کے لوگ کہلاتے ہیں- اور ہمارے جسے ملکوں نے تعلیم کو زیادہ ہمیت نا دی تو آج ہم تیسری دنیا کے باشندے ہیں-

پاکستان بھی ان تیسری دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جہاں تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ زبوں حالی کا شکار ہے، خاص طور پر صوبہ بلوچستان میں تعلیم کے نام پر بس عوام کو دھوکہ دیا جارہا ہے- کوئٹہ سے لے کر گوادر تک آپ کو ایک بھی ایسا سکول یا کالج نہیں ملے گا جہاں دنیا کی جدتوں کے مطابق تعلیم دی جا رہی ہو- بلوچستان میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابیں سن سَتر اور اَسی کے زمانے کی ہیں جو آج کے دور سے بالکل مطابقت نہیں رکھتیں- خاص طور پر سائنس کی نصابی کتابیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جسے ابھی تک دنیا انیسویں صدی کے گرد چکر لگا رہی ہیں-

سرکاری اسکولوں میں پڑھائی جانے والی سائنس کی کتابیں پہلی کلاس سے لے کر میڑک تک اردو میں پڑھائی جاتی ہیں- ان میں شامل اسباق انتہائی بورنگ ہیں اور آج کے زمانے کے جدید سائنسی علوم سے بالکل عاری ہیں. جدید زمانے میں طالب علموں کو ان کتابوں کو پڑھانا انہیں جہالت کے کنویں میں اتارنے جیسا ہیں- یہ سائنسی کتابیں آج کے دور کے طالب علموں کی ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات دینے سے بالکل بھی قاصر ہیں-

اس کے علاوہ ایک اور نصابی کتاب ہے جس کا نام مڈل تک تو معاشرتی علوم ہے، پر میڑک تک آتے اس کا نام بدل جاتا ہے اور کتاب کا نام مطالعہ پاکستان ہو جاتا ہے-

معاشرتی علوم میں پڑھائی جانے والے تمام کے تمام اسباق بلوچستان کے معاشرے سے تعلق نہیں رکھتے اور اس میں جو تاریخ پڑھائی جارئی ہے وہ بلوچستان کی نہیں سندھ کی ہے- معاشرتی علوم کتاب سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بلوچستان کی کوئی تاریخی حیثیت ہے ہی نہیں اور بلوچستان کے رہنے والے لوگوں کی کوئی ثقافت یا سماج نہیں- ہونا تو یہ چاہیے تھا اگر آپ بلوچستان میں یہ نصابی کتابیں پڑھا رہے ہیں تو اس میں شامل اسباق بلوچستان کی ثقافت اور کلچر سے ہم آہنگ ہوتے، بلوچستان کے مشہور لوگوں کا ذکر ہوتا، بلوچستان کا تاریخی پس منظر اور حال کا ذکر ہوتا، اور بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کے رہن سہن و ثقافت ذکر ہوتا تو یقیناً اس میں طالب علم دلچسپی لیتے اور زیادہ شوق سے پڑھتے، کیوں کہ ہر کوئی اپنی ثقافت ،کلچر اور اپنے پُرانے ہیروز کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں دوسرے صوبوں کی ثقافت، کلچر اور تاریخ کا ذکر ہرگز نہ ہو- بالکل ہو لیکن زیادہ تر اسباق بلوچستان کے بارے میں ہوں تو بہتر ہے-

دنیا میں کہیں بھی آپ جائیں بچوں کو تعلیم ان کو اپنی مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں ہم اپنی مادری زبان پڑھنے سے محروم ہیں. ہم اپنی مادری زبان بول توسکتے ہیں لیکن لکھ اور پڑھ نہیں سکتے اور اگر ایسی طرح رہا اور کچھ نہیں کیاگیا تو انے والے زمانوں میں ہم اپنی مادری زبان سے محروم ہوجاہیں گے . جب سے بلوچستان صوبہ بنا ہے ہر حکمران اس وعدے پر ووٹ لے کر گیا ہے اسمبلی کہ ہم اپنی مادری زبان کو نصابی کتابوں میں شامل کریں گے- لیکن وہاں جا کر وہ لُوٹنے میں اتنے مگن ہوجاتے ہیں کہ انہیں اپنا وعدہ یاد بھی نہیں رہتا-

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تعلیم کسی بھی قوم کو مہذب بنانے اور کسی بھی ملک کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک کا نظامِ تعلیم نہ صرف دورِ حاضر کی ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے بلکہ ہر صوبے کا نظام تعلیم دوسرے صوبے کے نظام تعلیم سے یکسر مختلف ہے، جس کی وجہ سے طلبا کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے-

آخر ہم نے اپنے ملک میں یہ متفرق نظام تعلیم کیوں رائج کر رکھا ہے؟ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ باہمی مشاورت سے ایک بہتر نظام تعلیم متعارف کرایا جائے جسے تمام صوبوں میں یکساں طور پر رائج کیا جاسکے تاکہ ہر صوبے کے طلبا وطالبات کو یکساں تعلیمی سہولیات میسر آ سکیں اور وہ دیگر صوبوں کے طلبا کے شانہ بشانہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).