بازار حسن کا انسائیکلو پیڈیا حکیم الدین غوری اس چکر میں کیسے پڑا؟


پھر وہ بولی ”اب تو اس طرح کی کتابیں نہیں پڑھتے۔ “ میں شرمندہ ہو کر رہ گیا۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اس نے میرے کمرے کی مختلف چیزوں کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ وہ کبھی کسی کتاب کو دیکھتی اور کبھی کسی کتا ب کا جائزہ لے کر واپس اس کو شیلف میں رکھ دیتی۔ وہ باتیں بھی کرتی جا رہی تھی اور ساتھ ساتھ اس کی نظر یں کمرے میں رکھی ہر چیز کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں۔ اس روز میں پہلی بار اپنی کزن کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھی۔

میں اس کی انوی ٹیشن کو سمجھ چکا تھا لیکن ہمت نہ کر پا رہا تھا۔ صورت حال واضح ہونے میں زیادہ دیر نہ لگی اور جو نہی دل میں چھپے ہوئے شیطان نے ذہن پر ایک چوٹ لگائی، وقت اور جذبات دونوں میرے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسل گئے۔ وہ میرے پاس تھی اور دوپہر کے ان لمحوں میں جب ہر کوئی ریسٹ کر رہا تھا وہ مجھے ایک عجیب قسم کے نشے سے سرشار کر رہی تھی۔ یہی نشہ بعد میں اپنے آپ کو خوش قسمت انسان سمجھنے لگا۔ مجھ پر ایک عجیب سا نشہ طاری تھی اور جی چاہتا تھا کہ وہ دوبارہ آئے لیکن وہ دوبارہ نہ آئی۔ سہ پہر کے بعد پتہ چلا کہ وہ جا چکی ہے۔

حکیم الدین غوری نے اپنی زندگی میں آنے والی پہلی عورت کے تجربے پر روشنی ڈالنے کے بعد سگریٹ سلگایا اور بولا یہ 1976۔ 77 ء کی بات ہے کہ ایک دن گڑھی شاہو جانے کے لئے جب میں پل کے اوپر سے گزرا تو وہاں ایک دوشیزہ کھڑی تھی۔ میرے پاس پرانے ماڈل کار تھی۔ اس کے ساتھ ایک بوڑھی عورت تھی۔ لڑکی نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور بولی : ”میری آنٹی سے پیدل نہیں چلا جا رہا، اگر ممکن ہو تو ہمیں پل کراس کر دیں۔ “ میں نے پہلے ہچکچاہٹ کا مظاہر کیا اور پھر دروازہ کھول کر انہیں بٹھا لیا۔ وہ بولی : ”پل اترتے ہی دائیں جانب گلی میں ہمارا گھر ہے۔ میں نے کار کا رخ اس کے بتائے ہوئے گھر کی جانب کر دیا۔ بوڑھی اماں اس دوران دعائیں دیتی رہی اور دو منٹ بعد ہم اس کے بتائے ہوئے گھر کے پاس کھڑے تھے۔ وہ بولی : ”گرمی ہے آپ پانی کا ایک گلاس پی لیں۔ “

” ہاں بیٹا آ جاؤ تمہارا اپنا ہی گھر ہے۔ “
میں نے پہلے تو انکار کیا اور پھر ان کے ہمراہ گھر میں داخل ہو گیا۔ بوڑھی عورت نے سر درد کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ “بیٹا تمہارا شکریہ میں تھوڑی دیر ریسٹ کر لوں۔ تم دونوں گپ شپ لگاؤ۔ “

بوڑھی عورت کے اس رویہ نے میرے دل میں وسوسہ پیدا کیا لیکن میں نے خاموشی ہی اختیار کرنا مناسب سمجھا۔ سمیرا، غالباً یہی نام تھا جو اس نے مجھے بتایا شربت بنا لائی۔ ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے جہاں خاصی گرمی تھی۔ وہ بولی : “آپ ساتھ والے کمرے میں آ جائیں وہ قدر ے ٹھنڈا ہے۔ میں کسی سعادت مند بچے کی طرح اس کے ساتھ چل دیا۔ یہ چھوٹا سا بیڈ روم تھا۔ جس کی دیوار پر ایک بڑی سی پورٹریٹ آویزاں تھی۔ وہ کسی انگریز عورت کی پورٹریٹ تھی جس کے جسم کے خدوخال اس قدر واضح تھے کہ لباس پہنے ہونے کے باوجود لگ رہا تھا جیسے وہ برہنہ ہے۔

اس نے میرے چڑھاؤ کا جائزہ لیا اور ایکسکیوز می کہہ کر باتھ روم چلی گئی۔ یہ باتھ روم کمرے کے ساتھ بنا ہوا تھا۔ اب صور تحال یہ تھی کہ میں کمرے میں اکیلا تھا۔ وہ باتھ روم میں تھی اور کمرے کی دیواروں پر سجی ہوئی پورٹریت مجھے گناہ کے لئے مکمل طور پر تیار کر چکی تھی۔ اس کی واپسی چند منٹ کے اندر ہوئی۔ منہ دھونے کے بعد اس کا چہرہ مزید نکھر گیا تھا اور میک اپ کی نسبت وہ میک اپ کے بغیر زیادہ اچھی لگ رہی تھی۔ اس کے سر سے ڈوپٹہ غائب تھا۔ چہرے پر ایک دل آویز مسکراہٹ لئے اس نے بالوں میں کنگھی کی اور میرے قریب آ بیٹھی۔

” آپ نے شربت نہیں لیا؟ “
” جی میں۔ جی میں لیتا ہوں۔ “

” آپ ڈرنک کرتے ہیں؟ “ا س نے اگلا سوال کیا اور جواب سنے بغیر بولی تکلف نہ کیجے میں کبھی کبھار ایک دو پیگ لگا لیتی ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے الماری سے بوتل نکالی۔ میرے انکار پر وہ بولی: ”آپ نہیں پیتے تو ہمیں کیا خاک مزا آئے گا۔ “

” نہیں نہیں، آپ لیں، میں ڈرنک نہیں کرتا۔“
” آپ کچھ کرتے بھی ہیں۔ “ وہ ہنستے ہوئے بولی۔

میں سمیرا کی بے باکی پر حیران تھا کیونکہ وہ کسی قسم کی ڈیمانڈ کیے بغیر مجھ پر نچھاور ہوئی جارہی تھی۔
” میں ان تمام عنایتوں کا مطلب نہیں سمجھا۔ “
” کچھ چیزیں زندگی بھر سمجھ میں نہیں آتیں۔ “ وہ بولی۔

میں نے گاڑی کی چابی اٹھانا چاہی تو اس نے کسی قسم کی مزاحمت نہ کی۔
میں اٹھ کھڑا ہوا ”اجازت ہے؟ “

” اپنے دل سے ذرا پوچھ لیں یہ اگر اجازت دیتا ہے تو چلے جائیں اور جانے کے بعد یہ کبھی آپ کو ہماری یاد دلائے تو چلے آیئے گا۔ “

میں اس کا جواب سن کر مزید حیرتوں کے سمندر میں ڈوب گیا کیونکہ وہ صوفے پر نیم دراز بیٹھی تھی میں پہلے ٹھٹھکا اور پھر باہر چل دیا۔ وہ مجھے گیٹ تک چھوڑنے نہیں آئی۔ میرے کان اس کے قدموں کی آواز سننے کے لئے بے چین تھے لیکن گھر میں مکمل سناٹا تھا۔ میرے دل چاہتا تھا کہ وہ گیٹ تک آئے لیکن وہ اپنے کمرے سے نہ نکلی۔ میں نے بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے کار کا دروازہ کھولا اور کن انکھیوں سے گیٹ کی طرف دیکھتا رہا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔

میں نے چابی اگنیشن میں گھمائی لیکن “چر، چر“ کی آواز کے بعد انجن خاموش ہو گیا۔ میں نے دوبار ہ کوشش کی لیکن بے سود آخر بونٹ اٹھا کر دیکھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر موجود تھی۔ تاروں میں کرنٹ آ رہا تھا، پٹرول موجود تھا، فیوز درست حالت میں تھے، بیٹری چارج تھی لیکن انجن سٹارٹ نہیں ہو رہا تھا۔ اسی ادھیڑ بن میں بیس پچّیس منٹ گزر گے۔ اچانک میری نظر ریڈی ایٹر پر پڑی۔ ڈھکن اٹھا کر دیکھا تو ریڈی ایٹر میں پانی نہ تھا۔ میں نے دائیں پائیں دیکھا، کہیں اور دور تک پانی کا نل بہ آیا۔ اب مجبوری تھی اور سمیرا کے گھر سے پانی لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ میں نے دروازے پر دستک دی۔ حسب توقع سمیرا کا چہرہ نظر آیا۔ وہ معنی خیز انداز میں مسکرائی۔

” آپ کا دل آپ کو واپس لے ہی آیا۔ “
” نہیں یہ ریڈی ایٹر کا کمال۔ “

میں نے اسے بتایا کہ گاڑی خراب ہو جانے کی وجہ سے مجھے آپ کو زحمت دنیا پڑی۔ وہ زہے نصیب کہہ کر اندر چلی گئی۔ میں نے ریڈی ایٹر میں پانی ڈالا۔ لیکن گاڑی پھر بھی سٹارٹ نہ ہوئی۔

سمیرا بولی : ”میرے ایک جاننے والے گاڑی ٹھیک کرنے کا کام کرتے ہیں انہیں بلا لوں۔ “

میں خاموش رہا، وہ میرا جواب سمجھ چکی تھی۔ ہم دونوں اندر گئے۔ اس نے کسی کو فون کیا اور تھوڑی دیر ہاں ہوں کرنے کے بعد رسیور رکھ دیا۔

اب دل میں چھپی خواہشات نے آنکھوں کا رخ کر لیا اور آنکھوں نے محبت کے تمام مرحلے پلک جھپکنے میں طے کر دیے۔ یوں تو میری زندگی میں سینکڑوں عورتیں آئیں لیکن اس کے ساتھ گزارے لمحات کا نعم البدل کبھی نہ مل سکا۔ وہ ڈانسر تھی۔ دو گھنٹے بعد مکینک بھی آ گیا۔ اس نے جونہی اگنیشن میں گھمائی انجن جاگ اٹھا۔ میں حیران تھا کہ یہ سب کیا ہے۔ مکینک نے گاڑی بند کر دی اور دوبارہ سٹارٹ کی۔ انجن بالکل ٹھیک ٹھاک حالت میں کام کر رہا تھا۔

ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ ہم دوبارہ کمرے میں آئے۔ لائٹ دوبارہ آف ہوئی اور آنکھ کھلی تو اندھیرا چاروں طرف پھیل چکا تھا۔ میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ سمیرا بستر پر موجود نہ تھی۔ میرے کپڑے غائب تھے۔ میں چکرا کر رہ گیا۔ باتھ روم سے کسی کا پاجامہ لیا اور گھر میں اہل خانہ کی تلاش شروع کر دی۔ اس گھر کے 3 کمرے تھے اور کمروں میں فرنیچر نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ صرف ایک ہی کمرہ درست حالت میں تھا۔ بڑی مشکل سے جسم کو ڈھانپا کیونکہ چھت پر مجھے ایک پرانی شرٹ پڑی نظر آ گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4