نیب کا رنجیت سنگھی انصاف اور شاہزیب خانزادہ


کل شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں ڈی جی نیب شہزاد سلیم صاحب تشریف لائے۔ وہ قوم کو آگاہ کرنے آئے تھے کہ نیب تمام کرپٹ افراد کو نہایت حکمت سے اپنے شکنجے میں جکڑ رہا ہے۔ مثلاً شہباز شریف کے بارے میں بتایا کہ انہیں اس لیے صاف پانی کے مقدمے میں تفتیش کے لیے بلا کر آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں پکڑا ہے کیونکہ وہ نہایت طاقتور ہیں اور گواہوں یا شواہد کو خراب کر سکتے ہیں۔ اب یہ نہایت معقول طریقہ ہے۔ اس پر شاہزیب خانزادہ کو یہ تو نہیں کہنا چاہیے تھا کہ اقتدار میں تو چوہدری پرویز الہی اور بابر اعوان ہیں، چوہدریوں کے مقدمے سنہ 2000 سے چل رہے ہیں، تو ان کو پکڑا جانا چاہیے کیونکہ شہباز شریف کی نسبت وہ گواہوں اور شواہد کو متاثر کر سکتے ہیں۔

سلیم شہزاد صاحب نے بتایا بھی کہ ان کی جائیدادیں کیونکہ باہر ہیں اس لیے ان کے مقدمے میں پیش رفت نہیں ہو رہی ہے لیکن شاہزیب خانزادہ مصر رہے کہ شریف خاندان کی باہر کی جائیدادوں کے لے جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، وہی چوہدریوں کے لیے بھی اختیار کیا جائے۔ بہرحال یہ اینکر ایسے ہی شر کے پتلے ہوتے ہیں، جب ایک شریف آدمی حق اور انصاف کا پرچم سربلند کر رہا ہے تو اسے کیوں کنفیوز کرتے ہیں۔

اسی انٹرویو میں ڈی جی نیب نے اپنے محکمے کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی۔ بتانے لگے کہ لوگوں کو کسی معاملے میں بلا کر جب ان سے بات چیت کی جاتی ہے تو اس سے نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک مقدمے میں سوالات کرتے ہوئے دوسرے مقدمے میں بندہ پکڑا جاتا ہے۔

اس سے ہمیں ایک کم عمر سے جانگلی بزرگ یاد آ گئے جو فرماتے ہیں کہ ”نیب کے کیس کرنے والے وکلا بتاتے ہیں کہ نیب کا عمومی طریقہ کار فشنگ ہے۔ مطلب بندے اور ریکارڈ اٹھا لو۔ بعد میں غیر متعلقہ سوال ناموں اور بندوں کے ذریعے کوشش کرو کہ اگر زیر بحث الزام ثابت نہیں ہوتا تو کچھ اور مل جائے۔ مثلا آپ نے فلاں کام منگل کو کیوں کیا تھا۔ سوموار یا بدھ میں کیا برائی تھی؟ جو بندہ پیشگی چھٹی لیے بغیر ماں کے جنازے پر چلا گیا تھا، اس کے خلاف محکمانہ کارروائی کیوں نہیں کی؟ وینٹی لیٹر پر پڑے بندے کو سرکاری کھاتے سے دوائی دینے سے پہلے ٹینڈر کیوں نہیں دیا تھا۔ ممکن ہے کہیں سے دوائی کے کم پیسے مل جاتے؟ ان کا دائرہ اختیار کرپشن ہے لیکن کچھ نہ ملے تو بندے یا محکمے کا پرفارمنس آڈٹ شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی نیت نیک ہوتی ہے۔“

ہم ان بزرگ کی بات کو مذاق سمجھ رہے تھے مگر ڈی جی نیب کی بات چیت سن کر پتہ چلا کہ واقعی ان کی نیت نیک ہے اور طریقہ یہی ہے۔ اب بعض ناقدین اس پر معترض ہوں گے کہ ثبوت ہوں تو بندہ پکڑنا چاہیے، کوئی بھی بندہ پکڑ کر اس سے دوسرے معاملات کے بارے میں پوچھ گچھ کرنا کہاں کی شرافت ہے۔ یہ ناقدین نہ صرف پنجاب پولیس کے طریقہ تفتیش سے ناواقف ہیں جو ایک جیب کترے کو پکڑنے کے بعد اس سے درجن بھر ڈکیتیوں اور پانچ چھے قتل کے جرائم کی کامیاب تفتیش بھی کر لیتی ہے، بلکہ ان کو پنجاب کے تاریخی طریقہ انصاف کا بھی علم نہیں ہے۔ تخت لہور میں انصاف کرنے کا روایتی طریقہ یہی ہے جو نیب استعمال کر رہی ہے۔

ممتاز مورخ ابن انشا لہور کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی انصاف پسندی کی تعریف کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ ”مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انصاف مشہور ہے۔ ویسے تو ہندوستان کے سبھی راجاؤں کا انصاف مشہور ہے لیکن یہ واقعی سب کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے۔ سزا دینے میں مجرم اور غیر مجرم کی تخصیص نہ برتتے تھے۔ جو شخص کوئی جرم نہ کرے وہ بھی پکڑا آتا تھا۔ فرماتے تھے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ اس وقت اس شخص کو سزا نہ ملتی تو آگے چل کر ضرور کوئی جرم کرتا۔ بعد کے حکمرانوں نے انہی کی تقلید میں جرم نہ کرنے والے کو حفظ ماتقدم کے طور پر سزا دینے اور جیل بھیجنے کا اصول اختیار کیا۔ کبھی مجرم کو بھی سزا دیتے ہیں اگر وہ ہاتھ آ جائے اور اس کا وکیل اچھا نہ ہو تو۔“

اب ان درخشاں اور آزمودہ روایات کے ہوتے ہوئے جو لوگ نیب پر اعتراض کر رہے ہیں، وہ کرپشن کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔ کیا وہ اس بات سے انکار کریں گے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں نہ صرف کرپشن ختم ہو گئی تھی بلکہ تخت لہور کا انصاف آج تک ایک مثال بن کر زندہ ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نیب کو رنجیت سنگھ کی سمادھی کے پہلو میں واقع حضوری باغ الاٹ کیا جائے تاکہ وہ ادھر اپنا ہیڈ کوارٹر اور کرپشن کی سمادھی بنا سکے۔

مہاراجہ کے انصاف کا اصول ہے کہ ایک کرپٹ شخص کو لازمی سزا دو خواہ اس عظیم مقصد کے حصول کی خاطر سو بے گناہوں کو بھی سولی کیوں نہ چڑھانا پڑے۔ نیب کا بھی یہی اصول دکھائی دیتا ہے۔ آپ کو غالباً نیب مقدمے میں گرفتار کراچی کا وہ شخص یاد ہو گا جسے دوران قید دل کی تکلیف ہوئی تھی لیکن اس نے آغا خان ہسپتال میں علاج کروانے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ اتنا مہنگا علاج افورڈ نہیں کرتا تھا۔ دو دن بعد وہ نیب عدالت میں پیشی کے لیے لے جاتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے منصف حقیقی کی عدالت میں پہنچ گیا۔

نیب کے کیس میں قید غریب ملزم کی نیب عدالت لاتے ہوئے موت

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar