اقبال ہے، اقبال ہے، اقبال ہمارا


سہل پسندی ہمارا قومی شیوہ سہی، پر جب سے تھوڑا بہت اقبال کو پڑھا، یہ تن آسانی ترک کر دی ہے۔ مشکلوں سے یارانہ گانٹھنے والے گو کہ ہمیشہ ”مشکل“ میں ہی ر ہتے ہیں مگر ”اقبال“ کو لہو رونے سے بچا لیتے ہیں۔ کیونکہ اقبال نے بہت پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ ”کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور“۔ اقبال کا شاہین بننے کے لئے تو ”پہاڑوں کی چٹانوں“ پہ بسیرا لازم ہے۔

آج ہمارا پورا ملک اس بحث میں الجھا ہے کہ یوم اقبال کی چھٹی ہو گی یا نہیں؟ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ یہ تعطیل کا خاتمہ ہے یا اقبال کی ”چھٹی“ ہے۔ ہمارا شکوہ تو فقط اتنا ہے کہ ہم نے اس چھٹی کو اتنا سر پہ کیوں سوار کر لیا ہے؟ اقبال کو یاد ہی کرنا ہے تو ادارے ”اقبال ڈے“ منا لیا کریں۔ ویسے بھی کونسا ہم اقبال کی تعلیم کو عام کر رہے ہیں؟ جو چھٹی ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق پڑ جائے گا؟ لے دے کہ ہم بچوں کو صرف قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش اور وفات کے ساتھ اتنا ہی بتاتے ہیں کہ ایک مفکر پاکستان تھے اور دوسرے بانئی پاکستان۔ ان کا انداز فکر اور فلسفہ حیات کیا تھایہ بتانا ضروری تو نہیں۔

چلئے بچوں کو چھوڑئیے، یہ بتائیں کہ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے اقبال کو پڑھا؟ کتنے ایسے ہیں جو اردو ادب کو بطور اختیاری مضمون منتخب کیے بغیر ہی اقبال کو گھول کے پی گئے؟ کتنے ایسے ہیں جو سکول، کالج اور یونیورسٹی کی لائبریری سے ”اقبال کی لکھی“ یا ”اقبال پہ لکھی“ کتاب کو ایشو کرا کے گھر لے گئے تھے کہ رات کو سکون سے بیٹھ کر مطالعہ کریں گے؟ ہماری سوشل میڈیا کی دیوانی نسل تو بس اتنا جانتی ہے جتنا فیسبک پہ پڑھتی ہے۔

کتنے ایسے ٹیچرز ہیں جو اقبال کا فلسفہ اپنے شاگردوں کو بتاتے ہیں؟ کتنے ایسے والدین ہیں جو اپنے بچوں کو نضاب کو ”رٹنے“ کے علاوہ کوئی کتاب پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں؟ ہر چیز کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ہر ہیرو کے لیے ایک چھٹی مختص نہیں کی جا سکتی۔ اگر ایسا کرنے لگیں تو آدھا سال تو چھٹیوں میں ہی گزر جائے۔ ہر کام ریاست پہ ڈال کہ خود بری الزمہ ہو جانا تو ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے۔

ہمیں اقبال سے بے انتہا عقیدت اور محبت ہے بس یہ سوئی رہتی ہے۔ جاگتی ہے تو نومبر کی 5 تاریخ کے بعد۔ تا کہ ہم جان سکیں کہ یوم اقبال پہ تعطیل عام ہو گی یا نہیں؟ آئیں اس سال یہ عہد کریں کہ ہم ہر سال ایک دن ”اقبال“ کے نام کا منایا کریں گے جس دن صرف ”ان پہ“ بات ہو گی اور ”ان کی بات“ ہو گی۔ حکومت چھٹی دے نہ دے اقبال کی ”چھٹی“ نہیں ہو گی۔ اس ملک کا بچہ بچہ جانے گا اور گائے گا
اقبال ہے، اقبال ہے، اقبال ہمارا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).