آزاد میڈیا کس کا پابند ہے؟


مجھ جیسا کوئی فرد جو جانتا ہی نہ ہو کہ سوشل میڈیا کیا چیز ہے، انٹر نیٹ کیا ہوتا ہے، فیس بک کس بلا کا نام ہے، واٹس اپ کس چڑیا کو کہتے ہیں، ایسے فرد کو یہ کیسے علم ہوگا کہ ملک میں بد امنی ہے، ابتری ہے، بے چینی ہے اور امن و امان کے حالات بہت بگڑ گئے ہیں۔

راقم کو جب بھی فرصت ملتی ہے تو وہ ’آزاد‘ چینلوں کے سامنے کچھ وقت گزار کر اس بات کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ خبریں کیا کہہ رہی ہیں۔ ایک درد مند پاکستانی ہونے کے ناطے راقم کو ملک کے حالات جاننے کی بہت فکر رہتی ہے اور راقم جب بھی ’آزاد‘ چینلوں کی خبریں سنتا ہے اسے بہت خوشی ہوتی ہے کہ پاکستان میں چہار سو امن ہی امن اور سکون ہی سکون ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ ملک میں ایک ہی ٹی وی اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔ لوگ اس کو سرکاری ٹی وی بھی کہتے تھے۔ اس کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اس میں جو کچھ بھی دکھایا جاتا تھا ’سب اچھا‘ دکھایا جاتا تھا۔ ہر جانب امن سکون اطمنان، ہر فرد خوشحال، ہر گھر میں ہن کی بارش اور ہر چہرہ شاداب۔ نہ جانے کیا ہوتا تھا کہ اس میں اچانک ’میرے ہم وطنو‘ کا پروگرام شروع ہوجاتا تھا۔ عوام و خواص سب کاموں سے ہاتھ چھوڑ کر اپنا منھ سرکاری ٹی وی کی جانب موڑ لیا کرتے تھے۔

’میرے ہم وطنو‘ کے ذریعے ہی ان کو اس بات کا علم ہوتا تھا کہ جس ملک میں وہ سانس لے رہے ہیں اس ملک کے کونے کونے میں آگ لگی ہوئی تھی۔ ہر جانب خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو برباد کیا جا رہا تھا۔ دکانیں جل رہی تھیں۔ بازار لٹ رہے تھے۔ گھر کے گھر برباد ہو رہے تھے لہٰذا ان سب حالات کے لئے عوام کو ’ہم وطنو‘ والا پروگرام چلانا ضروری ہو گیا تھا۔ لوگ حیرانی و پریشانی کے عالم میں ’میرے ہم وطنو‘ دیکھ رہے ہوتے تھے کہ جس ٹی وی میں چند لمحوں پہلے تو ناچ گانوں کا طوفان بد تمیزی زور شور سے جاری تھا اور امن و آشتی کے نغنے گونج رہے تھے یکا یک سارے مناظر جنگ جدل میں کیسے بدل گئے۔ کچھ بھی ہو بہر صورت عوام کو یقین کرنا ہی پڑجاتا تھا کہ چند لمحوں پہلے تک دکھائے جانے والے سارے مناظر نظر کا دھوکا اور سراب تھے اور اب جو دکھایا جارہا ہے وہ ہی حقیقت ہے۔ میرے ’ہم وطنو‘ پروگرام دیکھنے کے بعد عوام پر سکون ہوجایا کرتے تھے اور اپنے اپنے روز مرہ کے کاموں کا حصہ بن جایا کرتے تھے۔

گو کہ پاکستان میں بس وہی ایک سرکاری ٹی وی ہی تھا لیکن اسی ملک میں ایک فوجی حکومت آئی، اس نے صرف سرکاری ٹی وی کو ہی عوام کے لئے مناسب نہیں سمجھا اور پھر ہوا یوں کہ ملک میں آہستہ آہستہ آزاد چینلوں کا آغاز ہوا۔ اول اول نہ تو آنکھوں کو یقین آتا تھا اور نہ ہی کان اس بات کو ماننے کے لئے تیار تھے کہ پاکستان جیسے ملک میں بھی چینل ’آزاد‘ ہو سکتے ہیں لیکن سلام ہو اس فوجی حکومت کو جس نے چینل قائم کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ انھیں اس حد تک آزاد کر دیا کہ وہ ماشل لا دور میں بھی مارشل لا کی ہر غلط بات پر نہایت آزادی اور بے باکی کے ساتھ تنقید کرتے رہے۔

لال مسجد کا واقعہ کس کو یاد نہیں ہوگا۔ اس کی ہر کارروائی براہ راست اس انداز میں نشر کی جاتی رہی جیسے کرکٹ اور ہاکی کی کمنٹریاں نشر کی جاتی ہیں۔ اس نازک وقت میں ملک کے فوجی سربراہ نے چاہا کہ کم از کم لال مسجد آپریشن ختم ہونے تک عوام سے وہ سب باتیں پوشیدہ رکھی جائیں جو دوران آپریشن متوقع ہیں لیکن اس وقت کی طاقتور ترین فوجی حکومت کی اس گزارش کو چینل خاطر میں نہیں لائے اور آزادی اظہار کو بنیاد بنا کر لمحے لمحے کی کارروائی کو دکھایا جاتا رہا اور یوں پاکستان کے عوام میں یہ بات روح کی گہرائیوں تک اتر گئی کہ پاکستان میں قائم ہونے والے یہ سارے چینل واقعی آزاد ہیں اور ہر وہ بات جو مبنی بر حقیقت ہو اسے کسی خوف و خطر کے بغیر نشر کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔

آج پاکستان میں پی ٹی وی بھی ہے جو ہمیشہ کی طرح آج بھی دیانتداری کے ساتھ سرکار کا پابند ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر سرکاری ٹی وی ہی سرکار کے آگے سر تسلیم خم نہیں کریگا تو کون کریگا۔ لیکن لگتا ہے کہ اب اس سرکاری ٹی وی کا کوئی کردار باقی نہیں رہ گیا۔ وہ قوم و ملک کے لئے ہی نہیں خود سرکار کے لئے بھی ایک عضو ناکارہ بن کر رہ گیا ہے اور اگر اسے ختم ہی کردیا جائے تو قوم پر اس کا اور اس کے عملے کا بوجھ ہلکا ہو سکتا ہے۔

اب جتنے بھی آزاد چینل ہیں وہ نام نہاد ہو چکے ہیں۔ کوئی چینل بھی ایسا نہیں جو سرکار کی کسی پالیسی پر معترض ہونے کی جرات کر سکتا ہو۔ سارے کے سارے آزاد چینل اس بات کے ’پابند‘ ہو چکے ہیں کہ وہ وہی کچھ بولیں گے جو ان کے منھ میں ڈال دیا جائے اور وہی کچھ دکھانے کے پابند ہوں گے جو سینسر کے بعد ان کے حوالے کیا جائے۔

کس کو معلوم تھا کہ آسیہ ملعونہ کی عدالتی فیصلے کے بعد ملک انتہائی بےیقینی کیفیت کا شکار ہو چکا ہے۔ پاکستان کا سرکاری ٹی ہو یا نام نہاد آزاد چینل، امن، چین اور سکون ہی دکھا رہے تھے۔ وہی معمول کے سارے پروگرام، وہی ناچ گانے، وہی بیہودہ اشتہارات اور وہی حکومت کی سیاسی سرگرمیوں کا ذکر۔ کہیں بھی اور کسی مقام پر بھی کوئی فرد و بشرایسی بات سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ ملک میں ریل گاڑیاں بند ہو گئی ہوں گی ، ہوائی جہاز پرواز بھول گئے ہوں گے ، سڑکیں بلاک ہو گئی ہوں گی ، دکانیں لوٹی جارہی ہوں گی ، لوگوں کی ذاتی املاک کو تباہ برباد کیا جارہا ہوگا، عزتیں داؤ پر لگی ہوئی ہوں گی اور پورا پاکستان ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوگا۔

کہیں سے نہ کوئی خبر اور نہ کسی چینل پر کوئی ہلچل۔ ایسے میں کچھ ’پٹیاں‘ لوگوں میں بے چینیاں دوڑا نے لگیں۔ ملک میں دس دن تک موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی، دفعہ 144 کا نفاذ، اسلحہ رکھ کر چلنے پر پابندی، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہوگی وغیرہ۔ عوام کے کان کھڑے ہونا شروع ہو گئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے لیکن جہاں جہاں کسی بھی قسم کی کوئی گڑبڑ نہیں تھی وہ سب کے سب حیران و پریشان تھے کہ جب پورے ملک میں کچھ نہیں تو یہ سب کچھ کیا ہے۔ ابھی لوگ کسی نتیجے پر پہچ بھی نہ پائے تھے کہ اچانک ایک اعلان نے لوگوں کے دلوں کو دھڑکا کر رکھ دیا۔ ’جلد ہی وزیر اعظم پاکستان قوم سے خطاب فرمائیں گے‘ ۔

وزیر اعظم کے خطاب سے لوگوں کے علم میں یہ بات آئی کہ ملک جل رہا ہے۔ پورا پاکستان سلگ رہا ہے اور جس وجہ سے حالات سنگین ہو گئے ہیں وہ آسیہ ملعونہ کی رہائی ہے۔ میں اس بحث میں پڑے بغیر کہ رہائی کا فیصلہ غلط تھا یا درست، جو بات سمجھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب پورے ملک میں ہرجانب امن ہی امن اور چین ہی چین دکھایا جا رہا تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس بات کا سارے افسانے میں کوئی ذکر ہی نہیں تھا وہ بات ایک حاکم وقت کو کیوں بری لگی؟

وہ سارے چینل جو مارشل لا (پرویز مشرف والا) کے دور میں اپوزیشن کی تحریکوں کو لمحے لمحے رپورٹ کیا کرتے تھے، جولال مسجد کی کارروائی کی براہ راست دکھانے سے نہ چوکے، 126 دن کے دھرنوں کا ایک سیکنڈ بھی دکھانے سے نہ باز آئے اور پورے 6 سات برس سے ان کا رویہ آزادانہ تھا تو وہ ایک مکمل جمہوری دور میں کس خوف و دہشت کا شکار نظر آنے لگے۔ وہ میڈیا جو ہر کس و ناکس کے واش روموں تک گھس جایا کرتا تھا اب اس کا یہ عالم کیوں ہو گیا کہ اگر پورا پاکستان بھی شعلوں میں لپیٹ دیا جائے تو وہ جنت نظیر مناظر ہی دکھانے میں مصروف رہتا ہے۔ وہ کونسی قوت ہے جو اسے جکڑے ہوئے ہے اسے مجبور کر کے رکھے ہوئے ہے کہ اس کے حلق سے ایک آوازِ حق بھی نہ نکل سکے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی دھرنا ٹی وی سے نشر ہی کیا گیا تو پھر ’وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ دھرنے ختم نہ ہوتے تو حکومت گرجاتی، مظاہروں سے مصالحتی انداز میں ہی نمٹ سکتے تھے۔ ہم نے بہتر طریقے سے صورتحال کو کنٹرول کیا۔ ان کے بقول دھرنے سے نمٹنے میں کامیاب نہ ہوتے تو چین سے فوری واپس آنا پڑتا‘ ۔

راقم کی اگر یادداشت دھوکا نہیں دے رہی تو چین کا دورہ عین اس وقت شیڈول کیا گیا جب ملک ہنگاموں کی لپیٹ میں آ چکا تھا لہٰذا یہ کہنا کہ اگر دھرنا ختم نہیں ہوتا تو چین کے دورے سے واپس آنا پڑتا تو جب ملک کے حالات اتنے نازک دور میں داخل ہوگئے تھے تو دورے کو مؤخر کیوں نہیں کیا گیا؟

علما کی جماعت میں سمیع الحق وہ عالم تھے جو عمران خان کی حمایت میں اپنی عمر کے آخری سانس تک ڈٹے ہوئے تھے۔ اسی دوران ان کو بے دردی کے ساتھ ایک ’نجی‘ سوسائٹی میں شہید کر دیا گیا لیکن چین میں چَین ہی لکھا گیا اور واپسی پر بھی تا حال ان کی تعزیت کے لئے نہیں جایا گیا۔

یہ بات تو ہر عام و خاص کو سمجھ میں آتی ہے کہ بہت سارے امور ایسے ہوتے ہیں جن کو عام (پبلک) نہیں کیا جاسکتا جیسے بقول وزیر اعظم ’چین نے پاکستان کو نقد مالی مدد کا اعلان کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ اس سے چین کے دیگر پارٹنرز تحفظات کا اظہار کر سکتے ہیں‘ ۔ لیکن کیا چین نے یہ بھی منع کیا ہے ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن میں اگر قتل کی کوئی وارات ہوجائے، ایک شو میں 70 افراد ہلاک ہو جائیں اور پورے کا پورا اسٹیج زمین بوس ہوجائے تو اس کا ذکر بھی ٹی وی پر نہیں آنا چاہیے اور اگر خبر نشر کرنا ضروری ہو جائے تو بحریہ ٹاؤن کو بحریہ ٹاؤن کہنے کی بجائے ’نجی سوسائیٹی‘ کہا جائے؟

توہین رسالت کے سلسلے میں اگر پورا ملک جل رہا ہو اور اس بات کو حکمت عملی سمجھ کر خاموش ہوجایا جائے اور ایسے منفی حالات کو الم نشرح کرنے سے حالات اور بھی سنگین ہو سکتے ہوں تو کیا وہ لوگ جو بغیر فتنہ و فساد پھیلائے حضور (ص) کی محبت کے لئے جمع ہوکر دنیا کو یہ دکھائیں کہ ہم حرمت رسول پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتے تو ان کے جلسے اور جلوسوں کو بھی جائز کوریج نہ دی جائے تو اس بات کو کس خانے میں فٹ کیا جائے گا۔

گزشتہ دن مولانا فضل الرحمن نے کراچی میں لاکھوں افراد کی ریلی نکالی اور پھر لاکھوں افراد سے خطاب کیا لیکن میڈیا نے اسے وہ جگہ نہیں دی جو اس کا حق تھا۔ کیا پھر بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ میڈیا آزاد ہے۔

یہاں دو باتیں راقم ضرور کہنا چاہتا ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ موجودہ حکومت اتنی مضبوط ہے کہ اس کے منھ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون سے بھی بالا ہے تو مجھے اس کی مضبوطی کی کوئی دلیل نظر نہیں آرہی۔ جو حکومت ایم کیو ایم (پاکستان) کی 7 نشستوں کی مرہون منت ہو وہ کیونکر مضبوط جمہوری حکومت ہو سکتی ہے۔ اگر 6 یا 7 نشستوں کے مارجن والی حکومت اس درجہ مضبوط ہوسکتی ہے تو جو دو تہائی والی حکومتیں تھیں تو وہ ریت کی دیوار کیوں ثابت ہوئیں۔ ایک کمزور ترین حکومت کو کون مضبوط کر رہا ہے اور عوامی طاقت کی دو تہائی والی حکومتوں کو ریت کی دیوار کون بناتا رہا ہے۔ جب تک ان باتوں کی وضاحت نہیں ہوگی شاید اس وقت تک اندرون ملک ہی کیا ملک سے باہر کی دنیا بھی پاکستان سے مطمئن نہ ہو سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).