دھرنا کلچر کا بانی دھرنے سے خائف؟


2014 میں موجودہ وزیراعظم اور اس وقت کے چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کے اسلام آباد کے علاقے ڈی چوک میں 126 دن تک جاری رہنے والے دھرنے نے ملک گیر بلکہ عالمی شہرت تو حاصل کر لی لیکن ان کی پاکستان میں متعارف کردہ یہ ایجاد اب خود ان کے ہی گلے آ پڑی ہے یہی وجہ ہے کہ اب جناب وزیراعظم نے اپنے خطاب کے دوران مظاہرین اور املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عندیہ دیا ہے۔ مجھے یاد ہے ان دنوں یار دوست ذرا سی بات نہ ماننے پر مذاقاً دھرنا دینے کی دھمکی دے دیتے اور بات ہنسی مذاق میں آئی گئی ہو جاتی۔

اس وقت ہم میں سے تقریباً کسی کو بھی ہرگز یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ آنے والے وقتوں میں نوجوان نسل کے پسندیدہ ترین رہنما کا ایجاد کردہ یہ طریقہ خود انہی کے لیے درد سر ثابت ہو گا۔ یہی وجہ ہے آسیہ مسیح کے حق میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مذہبی جماعتوں نے بہت شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی نے گذشتہ سال کی طرح ایک بار پھر ہڑتال کی کال دی جس کی وجہ سے ملک کے مختلف شہروں میں ٹرانسپورٹ اور کاروبار بالکل بند رہا حالانکہ گذشتہ سال نومبر میں جب اسی تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی نے جب ختم نبوت قانون میں ترمیم کے معاملے پر دھرنا دے کر تمام شہروں میں پہیہ جام ہڑتال کی تو عمران خان نے دبے الفاظ میں اس دھرنے کی حمایت کی۔ گو خان صاحب کی یہ حمایت اس وقت کی حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے خلاف دباؤ بڑھانے کے لئے ہو گی لیکن خان صاحب خود دھرنا دینے کے دوران ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے ایسا احتجاج مغربی ممالک کا طریقہ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک پاکستان میں دھرنا کلچر کے بانی بلاشبہ عمران خان صاحب ہی ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالیہ احتجاجی مظاہرے کے دوران خان صاحب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے تھی کہ انہوں نے بھی چار ماہ تک جڑواں شہروں کے مکینوں کو جس طرح اذیت میں مبتلا کیے رکھا وہ ابھی تک ذہنوں میں تازہ ہے۔ پھر خان صاحب نے احتجاج اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کو ریاست کی طرف سے طاقت کا استعمال کرنے کی دھمکی کیوں دی؟ کیا عمران خان صاحب کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ حکومت چلانے کی پہلی شرط اپوزیشن کے رویے اور خود پر کی جانے والی تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ہے اور بالخصوص اس رویہ کو، جس کی داغ بیل خود انہوں نے ہی ڈالی۔

اور پھر یہ بھی خان صاحب کی ہی روایت ہے کہ انہوں نے ٹی وی کیمروں اور میڈیا کی موجودگی میں بجلی کے بلوں کو آگ لگا کر عدم برداشت کا رویہ اپنایا اور عام عوام کو بھی بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی تلقین کی۔ خان صاحب! اب آپ نے جب بجلی کے نرخ بڑھائے ہوں گے تو آپ کو یقیناً یاد آیا تو ہو گا کہ کارزارِ حکومت کوئی بچوں کا کھیل نہیں اور نہ ہی ملکی مسائل چٹکی بھر میں حل کیے جا سکتے ہیں بلکہ یہ کئی کروڑ عوام اور ملک کے اندرونی و بیرونی معاملات کو ایک ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے۔

خان صاحب کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، یہاں ہر چیز کا ریکارڈ ویڈیو، تصاویر اور اب تو سکرین شاٹس کی صورت میں موجود ہے۔ ادھر آپ ایک یوٹرن لیتے ہیں اُدھر آپ کے اگلے پچھلے حساب چکتا ہوتے ایک پل نہیں لگتا۔ اور آپ تو پاکستان میں دھرنے اور توڑ پھوڑ کلچر کے بانی ہیں تو جناب یہ آپ کے ہی لگائے ہوئے پودے کی آبیاری ہے جو اب آپ کے مخالفین آپ کے خلاف کر رہے ہیں۔ بچپن میں ایک کہاوت بار بار سنا کرتے تھے ”جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے“ اس وقت تو ان ضرب الامثال کی کچھ سمجھ نہ آتی تھی لیکن گردشِ ایام نے یہ کہاوت زندگی کے ہر موڑ پر بہت اچھے سے یاد دلائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).