یورپ میں آباد پاکستانی اور بکسہ سسرالی


یورپ میں ہر انسان کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں دینا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ دھائیوں سے یورپ میں رہنے والے پاکستانی بھی اکثرمقامی قانون سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ پیسے کے حصول کے لئے بلاوجہ انتھک محنت ہے۔ عمومی طور پر یہ سطحی یورپین پاکستانی یورپ میں بدحالی کا شکار ہوتے ہیں اور سال میں ایک دفعہ کپڑے خریدتے ہیں اور وہ بھی فروری کی سیل میں سردیوں کے اور نومبر کی سیل میں گرمیوں کے یا پھر پاکستان سے ہر آنے جانے والے کے ہاتھ بکسہ منگوا رہے ہوتے جس کو میں ”بکسہ سسرالی“ کا نام دیتا ہوں۔

ایسے بکسوں سے اکثر خواتین کے ریپلیکا سوٹوں کے علاوہ چاول، دالیں، اچار اور بھنے ہوئے مصالحے جیسی اجناس بھی برآمد ہوتی ہیں۔ جو پی آئی اے کے طیاروں کو معطر کرنے میں اپنا ثانی آپ ہیں۔ جب یہ بکسہ سسرالی مقامِ مقصود تک پہنچتا ہے تو وہ دن ان پاکستانیوں کے لئے کسی عید سے کم نہی ہوتا۔ کچھ تو اپنے آپ کو دنیا کا ”خوش نصیب“ ترین انسان سمجھتے ہوئے ”بکسہِ سسرالی“ کے گرد ”رقصِ زنجیراں“ بھی کر ڈالتے ہیں اس بات کو بالائے طاق رکھ کر کہ بکسہ سسرالی سے برامد شدہ اشیا کا ”محصول“ ان کی اپنی دن رات کی انتھک محنت سے حاصل شدہ کمائی سے ادا ہوا ہے۔

ایسے پاکستانی اکثر اپنی محنت کی دھاک بٹھانے کے لئے ایک گھر ضرور بناتے ہیں اور جگہ کا انتخاب پاکستان میں ہی کرتے ہیں کیونکہ یورپ میں رہ کر وہ فیصلہ ہی نہی کر پاتے کہ انہو نے ”پانا“ کیا ہے۔ اور اس انتخاب کے لئے بہترین جگہ سسرال کا قرُب ہوتا ہے اور اگر گھر بنانے کے لئے احاطہ ہم زلف یا سسر کے آمنے سامنے مل جائے تو گویا ”جنت ہی کما لی دنیا میں اب موت کے ڈر سے کون جئیے“ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ”واہ واہ“ وھاں سے کروانی چاھئیے جہاں سے ہمیشہ واہ واہ ہی نکلے۔

ایسے پاکستانیوں کا پاکستان میں کوئی بینک اکاؤنٹ بھی نہی ہوتا کیونکہ یہ فریضہ اکثر برادرِ نسبتی کو سونپا جاتا ہے جو کہ ”سالے“ سے ترقی پاتا ہوا اس بینک مینیجری کے ”منصب“ پر پہنچتا ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہو ”بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں“ دھی دا ور ”پیدا“۔ اگر کمائی ہوئی رقم اس سے بھی زیادہ سیکیور کرنی ہو تو ”انتخابِ زن“ کا سہرا سسر یا ہم زلف کے سر سجتا ہے۔ پاکستان میں ہم زلف کا رشتہ بھی عجیب ہے۔ انسان اس رشتے کو بچانے کے لئے اپنی زلفیں تک گنوا لیتا ہے۔

ایسے پاکستانی اکثر اپنے آپ کو ان لوگوں کے سامنے بدحال ثابت کرنے کی ”کامیاب“ کوشش کر رہے ہوتے ہیں جن سے انہے کسی بھی مالی نقصان کا خدشہ ہو۔ اب یہ اپنے ماتھے پر ”ادھار محبت کی قینچی ہے“ تو لکھنے سے رہے۔ ایسے پاکستانیوں کی انٹرٹینمنٹ یورپ میں جا بجا بنے کسی بھی نکڑ والے پارک تک محدود ہوتی ہے جہاں یہ ہر اس دن ”جبراً“ جاتے ہیں جس دن مقامی چھٹی ہو یا خود کو بیماری کی وجہ سے پیراسیٹامول بھی افاقہ نہ دے رہی ہو۔

یورپ کے ”تفریحی“ مقامات سے لطف اندوز ہونے کے لئے یہ پاکستانی اپنے ساتھ کرسپ کے پیکٹ، مقامی برانڈ کے فزی ڈرنک جن میں گیس صرف ڈرنک کا ڈھکن کھولنے کے لئے برائے نام بھری جاتی ہے جسے پینے کے بعد آنے والے واحد ڈکار کو نعمت سمجھا جاتا ہے اور پینے والا دل میں کہنے سے برملا گریز نہی کرتا ”پیسے ہون پورے ہوئے نے“ (پیسے تو اب پورے ہوئے ہیں ) اپنے ہمراہ لیجانا نہی بھولتے۔ اس تفریحی دورے کے بعد کرسپ اور ڈرنکس وھاں ایسے پھینک دیے جاتے ہیں جیسے عید کی نماز پر مسجد میں جوتیاں اور اگر کوئی انہے اس ”عظیم کام“ کو کوڑے دان میں پھینکنے کا مشورہ دینے کی جسارت کرے تو یہ حضرات سینہ چوڑا کر کے کہتے ہیں ”اپی چک لین گے اسی ٹیکس کس گل دا دندے (خود ہی اُٹھا لیں گے ہم ٹیکس کس بات کا دیتے ہیں ) ۔

ان یورپی پاکستانیوں کی“ مہمان نوازی ”بھی دیدنی ہوتی ہے۔ یہ مہمان کی“ مدتِ قیام ”کے مطابق ان پہ اپنی“ یورپی کامیابی ”کی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ “ قلیل مدتی قیام ”والے مہمانوں کو یہ کافی حد تک اپنے آپ کو مقامی باشندے ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو موسم گرما میں باربیکیو اور موسم سرما میں اپنے آپ کو سوئیزر لینڈ کے کسی برف پوش پہاڑ کی چوٹی سے نبرد آزما ہوتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ اور“ ایئر پورٹ سے ایئر پورٹ تک ”پارکنگ ٹکٹ سے لے کر سینمے کی ٹکٹ تک کا خرچہ بخوشی ادا کرتے ہیں۔

ایسے یورپین اکثر اپنے ہمسایوں میں غیر مقبول ہوتے ہیں اور ان کے ہمسائے ان کے ہاں غیر مقبول ہوتے ہیں وجہ صرف یہ کہ یہ سمجھتے ہیں ان کے چولہے میں جو آگ جل رہی ہے وہ میری کمائی ہوئی دولت کو دیکھ کر ہے۔ حالانکہ یہ سب ایک ہی سکہ رائج الوقت میں گزر بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ ان پاکستانی یورپین کی اکثر مقامی قانون سے زیادہ“ خاندانی امور ”پر گہری نظر ہوتی ہے اور یہ اکثر ایسے رشتے داروں کی مالی امداد کرتے پائے جاتے ہیں جہاں سے انہے نفع کی امید قرض کی رقم سے زیادہ ہو۔ جو ان کی پچیس ہزار کی امداد کے بدلے لاکھ دفعہ دوسرے عزیزوں کو اس مالی امداد کے بارے میں بتائیں۔

لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اپنے حال کو اچھا کیجئیے۔ صرف دوسروں کو دکھانے کے لئے اپنے آپ کو بدحال نہ کیجئے۔ اپنی محنت سے حاصل کی گئی دولت کو اپنے ہاتھ سے اپنے آپ پہ خرچ کیجئے نہ کہ مٹی پہ خرچ کر کے خود مٹی میں چلے جائیں۔ زندگی تھوڑی ہے اسے جائز طریقے سے بھرپورلطف اٹھائیں۔ کیا پتا کل ہو نہ ہو۔

رانا آصف محبوب

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رانا آصف محبوب

Rana Asif Mahboob is a Freelance content writer,blogger and social Media Activist.To find out More about him please Check His Twitter Account :@RAsifViews

rana-asif-mahboob has 8 posts and counting.See all posts by rana-asif-mahboob