جاؤ بیان دے آؤ


اس کے دوست اسے ساحر کہہ کر بلاتے تھے، وہ لفظوں کے ایسے تیر چلا جانتا تھا جو کسی اور کے قبضہ قدرت میں نہ تھے۔ ذہین آدمی تھا، بہت اچھا مقرر تھا اور غضب کا حسین و جمیل تھا، اس کے سوا بھلا کوئی کیا دیکھے کسی کی ذات میں؟

ذہین لوگوں کی محفل الگ ہوتی ہے اور حسن والوں کی الگ، وہ سب محفلوں کا مرکزی کردار تھا۔ اس کی سب خوبیوں کو اپنے سامنے بکھیریئے، ہر ایک کو الگ الگ ذہن تک رسائی دیجیے، ہر خوبی کے بیسیوں لوگ مل جائیں گے، لیکن وہ بہت سی خوبصورتیوں کا حسین امتزاج تھا۔ وہ ان چند لوگوں میں تھا جو یونیورسٹی میں اپنی کار پر آتے تھے۔ تب لوگوں کے پاس اپنی کار ہونا مالداری کی علامت تھا، جبھی اس کے ڈیپارٹمنٹ میں حسن وہ واحد نام تھا، جس کی مقبولیت اس کے ڈیپارٹمنٹ کے چئیر پرسن سے بھی زیادہ تھی۔ آپ اسے اگر مبالغہ آرائی سمجھنا چاہیں تو وہ محظ آپ کا ذاتی گمان ہو گا، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

اس کی آواز، لب و لہجہ اس قدر پر اثر تھا، کہ جب وہ سٹیج پر قدم رکھتا تھا، لوگ اس کی گزشتہ تقریروں کے جملے یاد کر کر کے محظوظ ہونے لگتے۔ لڑکیاں جو نسبتاً زیادہ حسن پرست تھیں، اگلی نشستوں پر براجمان ہوتیں تا کہ وہ اس کے لبوں کے ارتعاش تک کو محسوس کر سکیں۔ اور وہ جو خود کو نسبتاً کم عاشق مزاج سمجھتی تھیں وہ خود کو اس خوش فہمی مبتلا کیے ہوئے تھیں کہ حسن چونکہ حقوق نسواں کے لیے خود کو وقف کیے ہے، وہ محض اس لیے اسے پسند کرتی ہیں۔

( میرا ذاتی گمان تو یہ ہے کہ حسن پرستی انسانی خمیر کا لازمی جزو ہے، ہر مرد و عورت کا دل حسین لیکن غیر محرم جنس مخالف کو دیکھ کر چند لمحوں کے لیے ٹھہراؤ کا شکار ہوتا ہے، دل ہی دل میں معترف ہوتا ہے اور کشش محسوس کرتا ہے، اسے میرا خیال ہی تصور کیا جائے، اس کا نسبتاً کم عاشق مزاج لڑکیوں سے کوئی تعلق نہیں )

یہ بات درست تھی کہ وہ عورتوں کے حقوق پر بہت زور دیتا تھا، کیوں کہ ان دنوں عورتوں کے حقوق کی ایک تنظیم ”حقوق نسواں ک۔ گ“ لوگوں کی ذہن سازی کرنے کی تگ و دو میں تھی۔ ان کا خیال تھا کہ یونیورسٹی میں چونکہ طالب علم نوجوان ہوتے ہیں، ان کی ذہن سازی کر کے وہ جلد نتائج حاصل کر پائیں گے۔

انہیں حسن جیسا مقبول شخص مل جانا، ان کی خوش بختی تھی۔ یوں تو حسن کا تمام تر تقریری مواد تنظیم کا مہیا کردہ تھا، لیکن بعض اوقات وہ جوش میں آ کر کہتا تھا۔ ”میں ہمیشہ سے سوچتا تھا کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کیوں میں پیدا کیا گیا، کیا کوئی راز پس پردہ ہے؟ کیا میری آواز اور لب و لہجہ جو اللہ کی دین ہیں کسی خاص مقصد کے لیے ہیں؟ جتنے بھی لوگوں کو اللہ نے خاص صلاحیتوں سے نوازا، ان سے کوئی بڑا کام بھی لیا گیا، میں اپنی ذات میں بڑی ڈبکیاں لگاتا، لیکن میرے پاس ایسا کچھ نہ تھا جسے میں مطمح نظر بناتا۔ پھر میں چشم تصور سے جہان میں نظر دوڑاتا۔ میں نے دنیا دیکھی ہی کب ہے، اربوں میں میں کتنوں سے واقف ہوں؟ خدا جانے کتنے صلاحیتوں سے بھرپور اس دنیا فانی سے چلے گئے ہوں، خدا جانے کتنے راز ان پر آشکار ہوئے ہوں گے اور پھر وہ راز بھی زمین بوس کر دیے گئے ہوں گے، میرا وہم ہے کہ میرے ذمہ کوئی ذمہ داری ہے۔ یہ وہ جواب تھا جو میری تسکین کے لیے کافی تھا۔ لیکن اب میں نے ان مبہم تصورات سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے، مجھے میری منزل مل گئی ہے، میں اس دور میں اسی لیے پیدا کیا گیا، مجھے یہاں اس مقام تک اسی لیے پہنچایا گیا، کیوں کہ میں نے لوگوں کی سوچ بدلنی تھی، میں نے وہ آواز بلند کرنا تھی، جسے ہمیشہ سے دبایا جاتا رہا ہے، کیا آپ سب میرے اس مقصد میں میرا ساتھ دیں گے؟ “ یہ وہ واحد سوال تھا جس پر سارے نوجوان جوش و ولولے سے حمایت کا اعلان کرتے۔

حسن اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہو رہا تھا، اب وہ مختلف اداروں میں جاتا، وہاں اپنی پر اثر تقاریر کا سحر بکھیرتا۔ لیکن جب اس کے والد کا انتقال ہوا، اسے واپس گاؤں جانا پڑا، جس کے بعد سے اس کی دلچسپی کم ہوتی گئی۔

اس پر ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں، وہ زمیندار لوگ تھے، اسے زمین کے معاملات بھی سنبھالنا تھے، اور بہن کی شادی کی فکر بھی لاحق تھی۔ حقوق نسواں ک۔ گ کو بلآخر نئے لوگ ڈھونڈنا پڑے، لیکن حسن کی جگہ لینا کسی کے بس میں نہ تھا۔ حسن نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی اکلوتی بہن کی شادی کے بعد انہیں دوبارہ اسی جوش و ولولے سے واپس آ ملے گا، اس کی بہن کا رشتہ طے ہو چکا تھا، اسے ایک دن گھر پر اس کی والدہ نے بلایا، وہ کسی خاص موضوع پر بات کرنا چاہتی تھی، وہ گھر پہنچا، اس کی والدہ نے اسے بتایا کہ وہ اس کی ہمشیرہ کو اس بات پر قائل کر رہی ہے کہ وراثت میں اس کے نام جو زمین آئی ہے، وہ اپنے بھائی کے نام کروائے، پٹواری بھی بیان لینے آیا بیٹھا ہے مگر یہ نہیں مان رہی۔

حسن کی ہمشیرہ بھی وہیں موجود تھی، حسن نے فیصلہ کن نگاہوں سے اسے دیکھا۔ ”تم جانتی ہو زمینیں نسل در نسل چلتے چلتے کس قدر کم رہ گئی ہیں۔ اور پھر یہ تو ہماری خاندانی زمین ہے، اس میں ہم کسی اور کو بھائیوال کیسے بنائیں؟ کیا تم چاہو گی تمہارے بھائی کی اولاد مشکل وقت دیکھے؟ میں نے تمہارا رشتہ اسی لیے تو اچھی جگہ طے کیا ہے کہ تماری زندگی بھی آسان رہے، اور مجھے بھی کسی اندوہ کا سامنا نہ ہو۔ بہتر یہی ہے کہ تم جاؤ بیان دے آؤ“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments