بحران، مراعات، الزامات اور تحقیقات


گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت کو تین سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔ مسلم لیگ ن گزشتہ تین سال وفاقی ن لیگی حکومت کے چھتری تلے ترقیاتی کاموں کو بھرپور انداز میں مکمل کراتی نظر آئی۔ نو ارب کے ترقیاتی بجٹ کے بڑھاکر سترہ ارب تک کردیا گیا۔ متعدد ایسے منصوبے جو گزشتہ کئی سالوں سے نامکمل تھے ان کو بھی مکمل کردیا گیا۔ لیکن جونہی وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت تبدیل ہوکر پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آگئی، گلگت بلتستان میں مالی بحران نے سر اٹھالیا، معمول کے ترقیاتی بجٹ سے دو ارب کی کٹوتی کردی گئی، اسمبلی سے سترہ ارب کی منظوری جبکہ وفاق سے پندرہ ارب دینے کی رضامندی نے بحرانی کیفیت اختیار کرلی، ابھی تک صوبائی حکومت دو ارب کا خسارہ برابر کرنے سے قاصر ہے۔

اسی لئے ممبران اسمبلی سے بھی ابھی تک ترقیاتی سکیموں کی تفصیل اور تجاویز بھی طلب نہیں کی ہیں۔ ارباب سیاست کہتے ہیں کہ جب نوازشریف نے اقتدار سنبھالا اور گلگت بلتستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو مسلم لیگ ن کے چیف آرگنائزر (اُس وقت) حافظ حفیظ الرحمن نے نوازشریف کو ان تمام منصوبوں کی تفصیلات بتائی تھی جن میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے غفلت کی وجہ سے تکمیل میں مسائل آرہے تھے اور ترجیح ان منصوبوں کو دی جن کا ٹھیکہ پیپلزپارٹی حکومت کے عہدیداران کے پاس تھا۔

اب کے بار بھی گمان یہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے جن رہنماؤں کو وفاق میں رسائی ہوئی ہے انہوں نے کئی منصوبوں کی نشاندہی کرکے کام رکوانے کی درخواست کی ہے۔ بقول صوبائی مشیر اطلاعات گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال مقپون نے بھی وزیراعظم اور صدر پاکستان سے ملاقات میں کئی منصوبوں (پر بے ضابطگیوں ) کی شکایت کرکے روکنے کی درخواست کی ہے۔ وفاق میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پی ایس ڈی پی کے بھی متعدد میگا منصوبے التواء کا شکار ہوگئے ہیں یا پھر انہیں ختم کردیا گیا ہے۔

گزشتہ تین سالوں میں اسمبلی سے متعدد بل اور قرارداد منظورکیے گئے تاہم جن قراردادوں پر فوری عملدرآمد کرایا گیا ان میں وہی قرارداد تھے جن میں اپنے لئے مراعات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ موجودہ اسمبلی نے اپنے پہلے سال میں ہی تنخواہوں میں اضافے کی قرارداد بلاچوں چراں متفقہ طور پر منظور کی، اس قرارداد کی روشنی میں ممبران اسمبلی گزشتہ تین سالوں سے ماضی کی اسمبلی ممبران کے مقابلے میں تین سو فیصد زیادہ تنخواہ اور مراعات لے رہے ہیں۔

یہی پر رکیں نہیں بلکہ گزشتہ اسمبلی اجلاس میں ایک مرتبہ پھر ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان کی صدارت میں جاوید حسین اور سکندر علی خان نے غربت کارونا روتے ہوئے دوبارہ قرارداد لائی کہ جناب ہم غریب لوگ ہیں ہمارا عہدہ گریڈ 21 کے برابر یا اس سے اوپر ہوتا ہے جبکہ ہمیں گریڈ 17 کے برابر مراعات دی جا رہی ہیں لہٰذا ہماری مراعات میں اضافہ کیا جائے تاکہ ہم کرپشن کی طرف راغب نہ ہوں۔ اس مظلوم دلیل کی بنیاد پر ایک اور قرارداد منظور ہوگئی اور شنید ہے کہ اب صحت الاؤنس یعنی سرکاری علاج کے لئے بھی الگ قرارداد اسمبلی میں لائی جارہی ہے۔

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان اس وقت 7 اضافی غیر منتخب عہدیداران کے ساتھ کام کررہے ہیں، سابق وزیراعلیٰ مہدی شاہ صرف ایک اضافی معاون خصوصی کے ہمراہ کام کررہے تھے اب تین معاونین، دو مشیر اور دو سپیشل کوآرڈینیٹرز بھی تعینات ہیں، قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپیشل کوآرڈینیٹر کسی بھی محکمہ کے لئے حسب ضرورت تعینات کیا جاسکتا ہے تاہم ان کی تنخواہ صرف تیس ہزار اور مراعات محدود ہوتی ہیں۔ لیکن حافظ حفیظ الرحمن اپنے دو کوآرڈینیٹرز کو تیس ہزار کی بجائے تقریباً تین لاکھ تنخواہ دے رہے ہیں۔

موجودہ معاشی بحران جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، کے تناظر میں یہ بھاری فوج کیسے بقاء کی جنگ لڑے گی۔ اس قسم کی کوئی بھی قرارداد کسی غریب ملازم یا عام آدمی کے حق میں منظور نہیں ہوئی بلکہ کسی نے پیش کرنے کی ہمت بھی نہیں کی ہے، لفظ غربت کو اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے ہمارے معزز ممبران دس سالوں سے چند ہزار پر خدمات سرانجام دے نے والے عارضی ملازمین کو بھی بھول گئے۔ معاشی بحران کی صورتحال کو ایک طرف رکھ کے دیکھا جائے تو کئی غیر ضروری تعمیرات اور اضافی اخراجات نظر آئیں گے۔

وزیراعلیٰ نے اپنے سیکریٹریٹ کی تعمیر کے لئے 3 کروڑ رقم خرچ کی۔ موجودہ اسمبلی جسے پیپلزپارٹی اور اس سے قبل بھی ممبران کے لئے کافی تھی، کو از سر نو توڑ کر نئی تعمیر کی گئی۔ معاشی بحران کا واویلاکرتے ہوئے یہ ساری شاہانہ طرز تعمیرات کسی غریب صوبے کی تو نہیں ہوسکتی جس کا اپنا کوئی بجٹ بھی نہیں بلکہ وفاق سے گرانٹ پر انحصار کرتے ہیں۔

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے انتخابات سے قبل جامع اور موثر مہم چلائی اور پیپلزپارٹی حکومت کی ناک میں دم کیے رکھا، اور کرپشن کے الزامات کی تابڑ توڑ حملے کرکے عوام کو باور کرایا کہ صوبائی حکومت کرپشن میں ملوث ہے۔ اس تحریک اور مہم کے نتیجے میں عوام کا اعتماد منتخب ممبران اور حکومت سے اٹھ گیا جس کے نتیجے میں (بیک ڈور پالیسیز کے علاوہ ) مسلم لیگ ن سب سے زیادہ ورکنگ اور بڑی پارٹی کے طور پر ابھرآئی۔ حافظ حفیظ الرحمن کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد عوام کی بے تحاشا توقعات وابستہ تھیں۔

سب سے بڑا توقع جس کو حاصل کرنے کے لئے حافظ حفیظ الرحمن نے عوامی جذبات سے کھِیلا، وہ یہی تھا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا کھیل ختم ہوجائے اور لوگوں کو میرٹ کے مطابق روزگار ملے گا۔ گلگت بلتستان میں اکثر یت ایسے لوگوں کی ہے جو حصول علم برائے روزگار کرتے ہیں۔ میرٹ کا نعرہ لگاکر حکومت میں آنے والوں سے یہ امیدغالب تھی کہ وہ حقیقت میں بھی ایسا کریگی، اسی وجہ سے گریڈ 7 کے آسامیوں کے لئے بھی بڑی بڑی ڈگریاں لینے والے افراد لائنوں میں کھڑے ہوگئے۔

لیکن قرعہ اسی کے نام نکلتا رہا جس کا اثررسوخ زیادہ تھا۔ بظاہر ٹیسٹنگ سروسز کے ذریعے ٹیسٹ انٹرویو منعقد کرائے گئے لیکن اندرون خانہ 80 فیصد لوگ وہی بھرتی ہوئے جن کی سفارش تگڑی تھی، جن میں کسی ممبر کو ڈرادھمکانے کی صلاحیت بھی تھی۔ 20 فیصد شاید میرٹ پر ہوا ہوگا۔ ملازمین کا معاملہ بلاواسطہ حکومت اور علاقے کی ترقی سے ہے۔ گلگت بلتستان کے متعددسرکاری اداروں میں سفارشی بھرتیوں کی وجہ سے کام کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔

محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ گزشتہ تین سالانہ ترقیاتی منصوبوں کو فائنل نہیں کرچکی ہے اور سرکاری موقف یہی ہے کہ تکنیکی افراد کی کمی ہے۔ قابل غور بات ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں اب بھی کئی آسامیاں خالی ہیں مگر انہیں مشتہر کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔ مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت نے عارضی ملازمین کی تقرریوں پر علانیہ پابندی لگاکر اچھا اقدام اٹھایا ہے مگر چہیتوں کے لئے کنٹریٹ اور مستقل ملازمتیں بھی آسانی سے دستیاب ہیں۔

الزامات کا وہ سلسلہ جس کی بنیاد پر حافظ حفیظ الرحمن نے پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کا گھیراؤ کیے رکھا اب انہیں الزامات کے نے آسماں سے مڑ کر مسلم لیگ ن کی حکومت پر برسنا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں الزامات کا دفاع کرنا تو دور کی بات ہے بیانات کا دفاع کرنا بھی صوبائی حکومت نے گوارا نہیں کیا ہے۔ غیر قانونی اقدامات اور تقرریوں کے حوالے سے جب گوش گزار کیا گیا تو ثبوت طلب کیے گئے۔ یہی وہ بات تھی جس پر توجہ دینے کی بجائے سابقہ حکومت نے بھی ثبوت پیش کرنے کا چیلنج کرتے ہوئے وقت گزاری کی تھی، موجودہ حکومت بھی شکایات اور اعتراضات پر نوٹس لینے کی بجائے ثبوت پیش کرنے کا چیلنج دیتی رہی۔

مجھے امید ہے کہ اب کی بار ثبوت پیش کرنے کا چیلنج کرنے کی بجائے درون خانہ ہونے والی سرگرمیوں پر نوٹس کریں گے اور مزید بہکاوے میں آنے کی بجائے معاملات سے بگڑنے سے بچائیں گے۔ حاجی عابد علی بیگ کا نعرہ مستانہ ثبوت تلاش نہیں کرتا ہے تحقیقات کا طالب بنا ہوا ہے، اب عوام میں جانے کی خواہش ہے تو ہر گونج پر ہوشیار ہونا پڑے گا، جن لوگوں پر کرپشن کے الزامات لگاکر صورتحال تبدیل کردی گئی اور اپنا پلڑا بھاری کیا گیا ان الزامات پر آج تک تحقیقات نہیں ہوسکی ہے۔ تحقیقاتی اداروں کی تحقیقات بھی نوٹس لینے کے انتظار میں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).