شرحِ خاوندگی


وطنِ عزیز ان دنوں شرحِ خواندگی اور شرحِ خاوندگی ہر دو کی بابت ڈھیروں مسائل کا شکار ہے۔ شرحِ خواندگی المناک حد تک کم اور شرحِ خاوندگی خوفناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ چونکہ خواندگی سے اپنی قوم کو کوئی خاص سرو کار نہیں، لہٰذا پورا انہماک و استغراق خاوندگی اور زوجیت کے مباحث میں ہے۔ تاریخی تناظر میں زوجین کے معاملات ہمیشہ سے ہی دلچسپی کے حامل رہے ہیں۔ دنیا میں پہلے انسان کا تعارف بطور خاوند ہی ہوا اور پہلا رشتہ بھی زوجین کا تھا۔

ہابیل قابیل کے جھگڑے کی وجہ بھی حصولِ زن اور اعزازِ خاوندگی ہی تھا۔ روایات کے مطابق حضرت سلیمان کی ایک ہزار بیویاں تھیں۔ نائیجیریا کے اک مسلمان علم دین محمد ابو بکر بیلوکی نے غیر یقینی حد تک چھیاسی شادیاں رچائیں جن سے ایک سو ستر بچے بھی ہوئے۔ موصوف اصل میں روحانی شخصیت تھے اور اکثر خواتین بابا جی سے علاج کروانے آتیں اور اسی کی ہو کہ رہ جاتیں۔ کچھ تو اس کے بچوں سے بھی کم عمر تھیں۔ آخر شریعت کورٹ نے اسے اس جرم کیے لئے سزائے موت سنائی جس کے خوف سے بیاسی بیویوں کو طلاق دے کر سن 2008 میں رہائی پائی۔

کینیا کے زینٹیس اوگویلا نے سو سے سے زائد بیاہ کیے او ر اسے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر اپنا ہی سکول کھولنا پڑا۔ ایسے ہی امریکہ کے کو لو راڈو شہر میں ایک تنظیم کے سربراہ رولن ٹمپسن نے نہ صرف خود پچھتر شادیاں کیں بلکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ شادیونں کی ترغیب دیتا رہا۔ بڑے میاں کی وفات کے بعد چھوٹے میاں بھی اپنے والد کے نقش قدم پہ چلے اور اسی خواتین کو شرف ِ زوجیت بخشا۔ یہاں تک کہ اپنے ابا کی کچھ بیواؤں سے بھی بیاہ کر ڈالا۔

چند برس پہلے تک سعودی بدو بزنس مین صالح السیری بھی پہلی تین بیویوں کو مستقل رکھ کر باقی کو لاتے اور پھر چلتا کرتے رہے اور کل اٹھاون بیویوں کے شوہر ہونے کا اعزاز پایا۔ عرب ممالک میں تو ”یک زوجیہ“ ہونا باعث ِ شرمندگی سمجھا جاتا ہے۔ خاوندکو مجازی خدا بھی کہتے ہیں مگر ہمارے ہاں کہیں کہیں سادہ لو ح بیویاں شوہروں کو اپنے بندے کے نام سے بھی موسوم کرتی ہیں۔ خاوندگی کی دنیاوی و اُخروی شرحیں مختلف ہیں۔ دنیا میں حسب ِاستطاعت اور آخرت میں بصورتِ بخشش ستر کی نوید ہے مگر بیوی کو آخرت میں بھی دنیاوی شوہر ہی ملنے کی وعید سنائی گئی ہے۔

اکثر تہذیبوں میں خاوند کئی کئی بیویاں رکھتے چلے آرہے ہیں تاہم ہندو معاشرے میں زوجاؤں کے پانچ پانچ شوہر بھی رہے ہیں۔ زوجین ہی دنیا میں نسل انسانی کی بقا کے ضامن ہیں تاہم اس وقت دنیا میں ہولناک حد تک آبادی میں اضافہ بھی زوجین کی مشترکہ اضافی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ ہر کامیاب اور ناکام مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ایسے ہی کسی عورت کو پاؤں کی جوتی یا آنکھوں کا تارا بنانے میں پورا مرد اور اس کا خاندان شامل ہوتا ہے۔

ماضی کے شہنشاہ، خاوندگی میں کمال کی فضیلت رکھتے تھے اور کثیرالازدواجی و کثیرالاولادی کی معراج پہ مامور تھے۔ شاہجہان کی صلہ رحمی اور رحمدلی کی بابت مشہور تھا کہ بیگمات اور رعایا کبھی خالی پیٹ نہیں رہیں۔ ممتاز بیگم تیرہویں بچے کی ولادت کا دکھ سہتے ہوئے ملکِ عدم سدھاریں تو شاہجہان نے غریب خاوندوں کی زوجیت کا مذاق اڑاتے ہوئے تاج محل بنوا دیا۔ رومانوی کردار رانجھا، مجنوں، مرزا اور ماہیوال شرعی خاوندگیت سے تو محظوظ نہ ہو پائے تاہم ان پر نا خاوندگی کی تہمت بھی روا نہیں ہے۔

قیام پاکستان کے بعد بہت سی سر کردہ شخصیات نے کثیر الازدواجی میں نام کمایا جبکہ مولانا نیازی اور شیخ رشید نے نا خاوندگی کے موجب نام کمایا۔ زرداری صاحب نے تو خاوندگی کی ایسی تاریخ رقم کی کہ زوجہ کی رحلت کے باوجود آج تک فیض ِزوجیت سے مستفیض ہورہے ہیں۔ بے شمار آف شور اہلیائیں بھی ہماری عروسی تاریخ کا حصہ رہی ہیں۔ عدالت بھی کچھ حضرات کو اپنی بیویوں کو بطور اثاثہ ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں نا اہل قرار دے چکی ہے۔

کچھ جوڑوں کے باہمی اخلاص کا یہ عالم ہے کہ اڈیالوں میں بھی اکٹھے ساتھ رہنے کی قسموں کا بھرم رکھا۔ ثمینہ خاور حیات کی فراخ دلی کسے یاد نہیں جس نے شرح خاوندگی کو چار چاند لگاتے ہوئے نہ صرف اپنے میاں کو مزید شادیوں کی اجازت دی بلکہ اس حوالے سے اسمبلی میں بِل بھی پیش کردیا۔ ہمارے شمالی علاقہ جات میں ہر مرد کو دوسری شادی کے لئے پابند کرنے کی خبریں بھی ہیں۔ تاہم خاوندگی پر عدم اعتماد کے موجب یہاں کھر آف پاکستان کی شان میں ”میڈا سائیں“ اور عمرانی رویوں پہ ریحامی کتابیں بھی منظر عام پہ آتی رہی ہیں۔

خاوندگی کی شرح بیان کرتے وقت جناب وزیر اعظم کا ذکر نہ کرنا تاریخی زیادتی ہوگی۔ انہیں کسی کی زوجیت سے مالی منفعت ہوئی توکسی سے رومانوی اور سیاسی حاجات کی تشفی ہوئی جبکہ حقیقی کامیابی کا حصول روحانی خاوندگی اور زوجیت سے ممکن ہوا۔ عروسیت کے کھیل میں گذشتہ اور موجودہ خاوندگان کی چشمک، مخاصمت اور رقابتوں کے خوب چرچے رہتے ہیں مگر تاریخ میں چشم فلک نے پہلی بار فریقین اور دونوں خاندانوں کی کافی گاڑھی چھنتی دیکھی ہے اور ہر دو ہمہ وقت سیاسی، سماجی اور روحانی کمک کے واسطے تیار ہیں۔ یہاں تک کہ سوتیلے خاوند اپنی سابقہ زوجہ کے زعم میں ِ بیوروکریسی اور سیاست دانوں کو نیچا دکھانے کا شوق بھی رکھتے ہیں بقول شاعر
بنا ہے سابقہ شوہر پھرے ہے اِتراتا۔ وگرنہ دیس میں خاور کی آبرو کیا ہے۔

ادھر میاں صاحب کو عدالت نا اہل تو پہلے ہی قرار دے چکی تھی اب اہلیہ کی وفات کے بعدقسمت نے انہیں نا اہلیہ بھی ثابت کردیا ہے۔ گویا شرح خاوندگی، سیاسی تاریخ کا بھی دل چسپ ترین موضوع رہا ہے۔ بعض و اوقات تو خواوندگیت اور زوجیت کی شرعی و غیر شرعی تشریحات و تشخیصات، جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتیں۔ شاعر نے کیا خوب لکھا ہے

میں تو اہل ہوں کسی اور کا میری اہلیہ کوئی اور ہے۔ میں ردیف ِ مصرعہٗ عشق ہوں میرا قافیہ کوئی اور ہے
کسی تجربے کی تلاش میں میرا عقد ِ ثانوی ہوگیا۔ میری اہلیہ کو خبر نہیں میری اہلیہ کوئی اور ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).