جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی


ہمارے نئے وزیر اعظم دیگر چیزوں کے علاوہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر ”پرچی“ وزیر اعظم کی پھبتی اس قدر تواتر اور تسلسل سے کستے آئے ہیں کہ اب اگر خود دیکھ کر خطاب کریں گے تو سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر موقعے پر فی البدیہ تقریر فرما کر اپنی قابلیت اور خطابت کے جوہر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے اس حوالے سے ان کا ہر وار ہی اوچھا پڑتا ہے اور انہیں قومی اور بین الاقوامی فورمز پر بار بار خجالت، ندامت اور خفت کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ وہ ندامت اور شرمندگی محسوس کرنے میں خاصے سخت جان اور جفا کش واقع ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے کسی نے کیا ہی خوب بات کی ہے کہ بے عزتی اور سردی جتنی محسوس کرو گے اتنی ہی لگے گی۔ ابھی دو دن قبل ہی خان صاحب نے فی البدیہ تقریر دل پذیر میں ایک اور درفنطنی یوں چھوڑی کہ عالمی کرکٹ کے آل ٹائم دو عظیم کرکٹروں کا موازنہ پنجاب کے نو منتخب وزیر اعلی عثمان بزدار سے کر ڈالا۔ ان کے اس عجیب و غریب اور بے جوڑ موازنے پر ”کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی“ کی پھبتی تو نہیں کسیں گے مگر اتنا ضرور عرض کریں گے کہ موازنے اور مقابلے کے کچھ بین اور مستند اصول ہوتے ہیں۔ بھیڑ کا موازنہ بھیڑ ہی سے ہو گا نہ کہ بھینس سے۔ مگر انہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے وہ یو ٹرن کے شہنشاہ جوہوئے۔ اس موقعے پر ہم بقول شاعر یہی کہیں گے

پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جوبات کی خداکی قسم لاجواب کی

خان صاحب کو موازنے کے قواعد و ضوابط کے بارے میں تھوڑی شد بد حاصل کرنا چاہیے مگران کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں ان کی معلومات اور علم ادھورا اور ناقص ہی ہوتا ہے۔ اب ان کے اسی دعوے کو دیکھیے کہ جس میں نے انہوں نے فرمایا کہ عالمی کرکٹ کے نابغہء روزگار اور عظیم ترین کرکٹرز وسیم اکرم اور انضمام الحق ان کی دریافت ہیں۔ انضمام کی حد تک تو شاید ان کی بات میں جزوی صداقت ہو مگر جہاں تک وسیم اکرم کا تعلق ہے تو انہیں سابق کپتان اور عظیم بیٹسمین جاوید میانداد کرکٹ کے میدانوں میں لائے تھے۔

میانداد جیسے جوہری نے وسیم اکرم جیسے ہیرے میں مستقبل قریب میں پوری آب و تاب سے ضو دکھانے کا ہنردیکھ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے 1984 میں جب نیوزی لینڈ نے پاکستان کا دورہ کیا تو عمران کی بیماری کے سبب جاوید میانداد اسوقت پاکستان کے کپتان تھے۔ میانداد نے قذافی سٹیڈیم میں وسیم کو ٹرائل کے دوران دیکھا تو انہیں نومبر 1984 میں نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے جانے والے ون ڈے میچ میں پاکستانی ٹیم میں شامل کروا دیا۔ یوں وسیم دنیا کے ان معدودے چند کرکٹرز میں شمار ہو گئے جنہوں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے بغیر ہی انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھ دیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

اسی دورے میں انہوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف دس وکٹیں لے کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔ وسیم اکرم کا شاندار اور عظیم کیرئر کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ بارہا کرکٹ میں جاوید میانداد کو اپنا استاد قرار دے چکے ہیں۔ ان کے ٹیسٹ، ون ڈے اور فرسٹ کلاس کرکٹ پر نظر ڈالیے تو لگتا ہے کہ وہ کرکٹ کا کوہ ہمالیہ ہیں۔ کل 104 ٹیسٹ میچز میں 23.6 کی منفرد اوسط سے 414 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ ون ڈے میں 356 میچز میں 23.5 کی لاجواب اور شاندار اوسط سے 502 وکٹیں لے چکے ہیں۔

جب کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں 257 میچوں میں 1042 وکٹیں ان کے عظیم ترین باؤلر ہونے کا اعلان کر رہی ہیں۔ بعد میں عمران خان کی قیادت میں ضرور اپنے جوہر دکھائے اور 1992 کے ورلڈ کپ کا حصول ان کی بے مثال کارکردگی کا مرہون منت ہے مگر ان کے شاندار کرکٹ کیرئر کی شروعات جاوید میانداد جیسے جوہر شناس قائد کا کارنامہ ہے نہ کہ عمران خان کا۔ البتہ عمران نے ماجد خان، عبدالقادر، قاسم عمر جیسے بڑے کرکٹرز کا کیرئر اپنی ہٹ دھرمی اور مخصوص افتاد طبع کے باعث قبل از وقت ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

وسیم اکرم کے برعکس پاکستانی کرکٹ کے ایک منفرد ”ہیرے“ کو بغیر کارکردگی دس سال تک ”بوجوہ“ ٹیم پر بھاری بوجھ کی صورت لادے رکھنا خان صاحب کا واقعی ہوش ربا اور محیرالعقول کارنامہ ہے جس پر وہ بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ جی قارئین بالکل ٹھیک سمجھے۔ یہ کراچی سے تعلق رکھنے والے منصور اختر ہیں جنہوں نے 1980 سے 1990 تک دس سال کے دوران میں 19 ٹیسٹ میچز میں 25.2 کی اوسط سے صرف 655 رنز بنائے اور ون ڈے کیرئر میں 41 میچوں میں 17.4 کی اوسط سے 593 رنز بنائے۔

اس ”حسن کارکردگی“ کے باوجود ان کا دس سال تک ٹیم کی نمائندگی کرتے رہنا معجزے سے کم نہیں۔ اس حوالے سے حاسدین کچھ ایسی کہانیاں بیان کر رہے ہیں کہ جن پر ہم سر دست چپ ہی رہیں تو اچھا ہے۔ عقابی نگاہ اور شاہین کا تجسس رکھنے والے صحافیوں کے لیے صلائے عام ہے کہ وہ عثمان بزدار کے وزیر اعلی بننے اور منصور اختر کے دس سال تک کرکٹ ٹیم کا حصہ رہنے کے معاملات میں قدر مشترک تلاش کریں۔ آخر میں ہم وسیم اکرم اور انضمام جیسے عظیم کھلاڑیوں کا بے موقع اور بے سروپا موازنہ عثمان بزدار سے کرنے پر شدید احتجاج کرتے ہیں اور خان صاحب کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں عثمان بزدار مستقبل قریب میں وسیم اکرم نہیں منصور اختر بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).