آسیہ بی بی کا پہلا فیصلہ غلط ہے یا دوسرا؟


اس وقت پورے ملک میں شور تو آسیہ بی بی کے گناہ گار یا بے گناہ ہونے کا مچا ہے کچھ اس کی رہائی پر خوش ہیں تو کچھ احتجاج کررہے ہیں۔ لیکن اس سارے شور میں انصاف کی تاخیرکا معاملہ کہیں دب کر رہ گیا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو آسیہ بی بی کیس نے ایک بار پھر ہمارے نظام انصاف پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ اس خاتو ن نے کیا واقعی توہین رسالت کی یا اس کے خلاف جھوٹا کیس بنایا گیا، اس بات کا فیصلہ ہونے میں نو سال بیت گئے۔

اس نو سال کی طویل مدت میں تین عدالتی فیصلے منظر عام پر آئے۔ 2009 میں کیس درج ہونے کے ایک سال بعد نومبر 2010 میں سیشن کورٹ نے ملزمہ کو موت کی سزا دی۔ پھر چار سال کیس تک اپیل سننے کے بعد 2014 میں ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کا سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اب مزید چار سال آسیہ بی ی کی اپیل ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت رہی۔ جس نے گزشتہ دونوں فیصلوں کے برعکس فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بے قصور قرار دیا۔ اب یا تو سیشن اور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت صحیح نہیں کی اور جانبدارانہ فیصلہ سنایا یا ہائی کورٹ نے اپیل کی سماعت صحیح انداز میں نہیں کی یا پھر سپریم کورٹ سے فیصلے میں غلطی ہوئی۔ جان کی امان پاوں تو عرض کروں کہ دونوں متضاد فیصلوں میں یقیناً کوئی ایک تو غلط ہے۔

اگر اس کیس میں اتنا وقت نہ لگتا اور عدالتی فیصلوں میں بھی یکسانیت ہوتی تو شاید اس کے خلاف اتنا شدید ردعمل بھی نہ آتا۔ ان نوسالوں میں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور وفاقی وزیر شہباز بھٹی آسیہ بی بی کی حمایت کرنے کی پاداش میں جاں سے گئے۔ چار بچوں کی ماں اپنی اولاد سے اس وقت دور رہی جب بچوں کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اگر وہ بے گناہ تھی تو اس بات کا فیصلہ کرنے میں اتنی مدت کیوں لگ گئی اور اگر گناہ گار تو سزاپر بروقت عمل درآمد کیوں نہ کرایا گیا۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔

مذہبی جنون اور شور و غوغا میں یہ بات کہیں دب کر رہ گئی کہ ایک اور کیس کسی انسان کی زندگی کے نوسال نگل گیا۔ یہ پہلا کیس یا واقعہ نہیں جس میں کسی شخص کی بے گناہی یا جرم ثابت ہونے میں دہائیاں بیت گئیں۔ اس ملک کی تاریخ ایسے کیسوں سے بھری پڑی ہے جو سال ہا سال لٹکے رہے۔ لوگوں کی عمریں بیت جاتی ہیں لیکن فیصلے نہیں ہوتے۔ مقدمات کئی نسلیں بھگتی ہیں اور پھر بھی انصاف نہیں ملتا۔ مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل ایک شخص مظہر حسین کو سزائے موت سنائے جانے کے بارہ سال بعد سپریم کورٹ نے بے گناہ قرار دے کر رہائی کا حکم دیا تو اس وقت پتا چلاکہ مظہر حسین تو قاتل کا لیبل سر پر سجا ئے دوسال قبل وفات پا چکے ہیں۔ اب بعد از مرگ ان کی بے گناہی کا اعتراف شاید اپنے نظام عدل کی ناکامی کا اعتراف کے سواکچھ بھی نہیں۔

حضور والا، اس وقت ملک عزیز میں موجود سب سے بڑی خرابی کرپشن نہٰیں بلکہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہے۔ بہت سے دانشوروں کا ماننا ہے کہ بروقت انصاف ملناشروع ہو جائے تو کئی گھمبیر مسائل خودبخود حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اب جبکہ ملک میں پاکستان تحریک انصاف حکومت میں ہے تو کیا ان کے دور میں بھی انصاف کے نظام میں بہتری کے لیے کسی نئی تحریک کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کم از کم اپنی جماعت کے نام کی ہی لاج رکھ لے اور انصاف کی فراہمی کے نظام میں بہتری کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقداما ت کرے۔

ملک میں انصاف کی تاخیر کی ذمہ دار محض عدالتیں نہیں ہیں بلکہ اس کی ذمہ داری عدلیہ، وکلاء اور انتظامیہ پر مشترکہ طور پر عائد ہوتی ہے۔ تمام فریقین کو مل کر اس نظام میں موجود خرابیوں کا سدباب کرنا ہوگا۔ اس بات کا تعین بھی ضروری ہے کہ کسی بھی مخصوص کیس میں انصاف کی تاخیر کا ذمہ دار کون ہے اور تاخیری حربے استعمال کرنے والوں کی نشاندہی کے ساتھ ان پر کوئی جرمانہ یا سزا کا نفاذ بھی ہونا چاہیے۔

مانتا ہوں کہ ملکی بقا کے لیے ڈیم بنانا بھی بہت ضروری ہیں لیکن انصاف کی بروقت فراہمی شاید اس سے کہیں زیادہ ضروری اور ناگزیر ہے۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).