تجھے اب کس لیے شکوہ ہے کہ بچے گھر نہیں رہتے


اللہ تعالیٰ نے پہلے آدم علیہ السلام کے جسم کو بنایا پھر ان کی ایک پسلی سے حضرت حوا علیہ السلام کو تخلیق بخشی اس طرح ان کی نسل سے عالم انسانیت کو وجود بخشا۔ یہ ایک فطری عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کے بنائے گئے قانون کے مطابق ہے کسی بھی معاشرے کے روشن مستقبل کے ضامن یہی بچے ہوتے ہیں جن کی دینی و اخلاقی تربیت کے ذریعے سے معاشرے میں عظیم انسان وجود‌میں آتے ہیں جو عالم انسانیت کے لئے فلاح و بہبود کا‌ کام انجام دیتے ہیں اور اگر یہی بچوں کی تربیت ماں کی گود سے ہی صحیح طریقے پر نا کی گئی ہو تو وہ دنیا کے اندر بگاڑ اور فساد پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

آپ صلیٰ اللہ علیہ کو بھی بچوں سے بڑا لگاؤ تھا آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم اپنے نواسے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ کھیلا کرتے تھے انکوں اپنی پشت مبارک پر بیٹھا کر ان کی سواری بن جاتے اور گھر میں چکر لگاتے تھے۔ حدیث میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کے جو چھوٹو پر شفقت نا کریں اور بڑوں کا ادب نا کریں وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے عالمی سطح پر مختلف ممالک میں مختلف تاریخوں میں یوم اطفال منایا جاتا ہے 1925 میں بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے عالمی کانفرنس میں عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا گیا اور اقوام متحدہ نے 20 نومبر 1954 میں یوم اطفال منایا۔ ہندوستان میں جواہر لال نہرو کے یوم پیدائش کے موقع پر ہر سال 14 نومبر کو یوم اطفال منایا جاتا ہے کیونکہ پنڈت جواہر لال نہرو کو بچوں اور گلاب سے بہت محبت تھی وہ بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے تو ان کے ساتھ ہو لیتے ان کی پیدائش 14 نومبر 1889 میں ہوئی انہوں نے بھارت کی تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بھارت آزاد ہوا تو آزاد بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے۔

انہیں بچے چاچا نہرو کے نام سے پکارتے تھے۔ بھارت کے دستور میں بچوں کے تحفظ کے لئے کئی قانون نافذ کیے گئے ہیں۔ دفعہ 24 کے تحت 14 سال سے کم عمر والے بچوں کو کسی بھی جوکھم بھرے کام کے مقام پر ملازمت کرنے پر روک ہے۔ دفعہ 45 کی رو سے جو پیدائشی أصول کا حصہ ہے 14 سال سے کم عمر والے بچوں کو مفت لازمی تعلیم کی سہولت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بقا کا حق، شناخت کا حق، کھانے پینے کا حق، صحت کا حق، بڑھنے کا حق، سیر و تفریح کا حق، نام و قومیت کا حق، خاندان اور خاندانی ماحول کا حق، انسانی خرید وفروخت سے تحفظ کا حق، یہ تمام حقوق بنائے گئے ہیں لیکن آج ہندوستان میں بچوں کے ساتھ ہورہی نا انصافیوں پر نظر ڈالیں جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آج لاکھوں بچے ناقص غذائیت کا شکار ہے۔

اکثر بچے والدین کی پریشانیوں کو دیکھ کر معاشی پسماندگی کی وجہ سے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر شہر ہر گاؤں میں ایسے سیکڑوں بچے دیکھنے ملتے ہیں جو کچروں کے انبار اور ڈمپنگ گراؤنڈ میں گھومتے دکھائی دیتے ہیں جو اس کچرے کے ڈھیر سے پلاسٹک وغیرہ جمع کر کے بچتے ہیں اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرتے ہیں جبکہ یہ عمر بچوں کے کھیلنے کودنے کی ہوتی ہے اس‌ عمر میں بچوں کو کام کرنے پر قانونی پابندی عائد کی گئی ہے اس عمر میں انہیں لازمی مفت تعلیم کا حق دیا گیا ہے۔

لیکن حکومت کی غیر توجہی کی وجہ سے آج وہ بچے جو مستقبل کے معمار ہونے والے ہے وہ اپنے کتابیں اور دفتر کچرے کے انبار میں تلاشتے ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک کی معاشی حالت بد سے بد ترین ہوتی جارہی ہے امریکی ڈالر کے مقابلے میں ہندوستانی روپے حد درجے گر چکا ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اناتھ آشرم وغیرہ میں بھی بچوں کا جنسی استحصال کیا جارہا ہے۔ جس میں کئی بچوں کے غائب ہونے کی خبر کو دبا دیا جاتا ہے جن کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ یو پی میں بی جے پی کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے اقتدار میں آنے کے بعد اتر پردیش۔ بھارت کے گورکھپور میں واقع سرکاری زیر سرپرستی چلنے والے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں کئی چھوٹے بچوں کی 2017 ء میں موت واقع ہو گئی۔

2 ستمبر 2017 ء کو موصولہ اطلاع کے مطابق 1,317 بچے اس سال اسپتال میں فوت ہوئے تھے۔ ان اموات پر ذرائع ابلاغ نے کڑی نظر ڈالی جب اگست کے مہینے میں 325 بچے وہاں فوت ہوئے تھے۔ ملکی سطح پر بچوں کی اموات میں کافی اضافہ ہوا ہے اس کے علاوہ گھریلو مسایٔل بھی بہت سارے ہے جس میں والدین کی طرف سے بچوں پر خصوصی توجہ نہ دینا ان کی پرورش صحیح طریقے پر نہ ہونا جس کی بہت ساری وجوہات ہے سوشل میڈیا پر والدین کا اکشر مصروف رہنا باپ کے ساتھ ماؤں کا بھی نوکری کرنا اور بچوں کو نوکرانیوں کے حوالے کرنا جس کی وجہ سے بچوں کو ماں کی محبت نہیں مل پاتی اور ان کی صحیح تربیت نہیں ہو پاتی اور وہی بچے پھر آگے چل کر والدین کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ کر آجاتے ہیں۔ اور پھر وہ اپنے بچوں کی نافرمانیوں کا رونا روتے ہیں۔

ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے بچے جو بچپن میں سیکھتے ہیں وہ کبھی نہیں بھولتے اس لیے بچپن میں اسلامی تعلیمات کے مطابق بچوں کی تربیت کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ آنے والی نسل کا مستقبل تابناک روشن ہو۔ آج سوشل میڈیا کے استعمال کی وجہ سے بچے بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں مالدار گھروں میں کم عمر میں ہی بچوں کو پرسنل کمپیوٹر پرسنل روم دیے جاتے ہیں جو انٹرنیٹ پر موجود بے حیائی پہلانے والے مواد دیکھ کر بد فعلی اور بد اخلاقی کا شکار ہوتے ہے اور معاشرے میں فتنہ و فساد کا سبب بنتے ہیں۔

کمپیوٹر پر آن لائن گیمز کھیلتے ہیں جس‌پر ایسے گیمز موجود ہیں جس میں مختلف ٹاسک دیے جاتے ہیں اور اس طرح بچے غلط قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جو بچے پہلے اندھرے میں اکیلے رہنے سے ڈرتے تھے آج ان بچوں میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی کے وہ اکیلے کمرہ میں رہنا پسند کرتے ہیں جس کی وجہ ہے کہ کم عمری میں ان کے ہاتھوں میں انڈرائیڈ فون اور ٹیبلٹ دیے جاتے ہیں جس کے ذریعے وہ کمرے میں بیٹھ کر ساری دنیا کی سیر کر لیتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دیں تاکہ بعد میں شرم سار نہ ہونا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).