حسن ناصر کی شہادت


13 نومبر 1960 کو پاکستان کے ایک عظیم سپوت حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قلعہ کے عقوبت خانہ میں اذیتیں دے کر مار دیا گیا۔ اس کا قصور کیا تھا؟ وہ ملک کے ہر شخص کے لئے بنیادی ضروریات زندگی روٹی کپڑا مکان اور روز گار ، پاکستان کے لئے ایک آزاد خارجہ پالیسی مانگتا تھا۔ وہ امریکی سامراج کے خلاف تھا۔ پاکستان کے اس عظیم سپوت کے ملک کے اداروں کے ہاتھوں قتل کو سمجھنے کے لئے ہمیں بر صغیر کی تاریخ میں جھانکنا ہو گا۔

تاریخ میں یہ ہوتا آیا ہے کہ حملہ آور آتے ہیں، ملک فتح کرتے ہیں اور پھر اسی ملک میں بس جاتے ہیں۔ یہی دوسرے ممالک کے علاوہ ہندوستان یں بھی ہوا۔ لودھی،غوری، خلجی اور آخر میں مغل آئے اور ہندوستان میں بس گئے اور اسے اپنا وطن بنا لیا۔ یہاں کے لوگوں میں رچ بس گئے اور یہاں کی تہذیب کو اپنا لیا۔ وہ اپنی رعایا کو مذہب کی عینک سے نہیں دیکھتے تھے۔ مسلمان حکمران ہیں تو ان کی فوج میں آپ کو ہندو اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی نظر آئیں گے اسی طرح ہندو اور سکھ حکمرانوں کی فوج میں بھی آپ کو مسلمان نظر آئیں گے۔

انگریز جب پہلے پہل ہندوستان آئے تو انہوں نے نہ صرف یہاں کی زبان سیکھی بلکہ انہوں نے ہندوستانیوں کے رسم و رواج اور طرززندگی کو بھی اپنا لیا۔ لہذا ہم ایسے انگریز بھی دیکھتے ہیں جو ہندوستانی لباس پہنتے تھے اور ہندوستانی زبان بھی بولتے تھے، وہ مجرا بھی دیکھنے جاتے تھے،شعر بھی کہتے تھے، وہ ہندوستانی تہذیب میں رنگے ہوئے تھے۔ یورپ میں انہیں دنوں سامراجی فلسفہ عروج پر تھا اورساتھ ہی ساتھ سامراج دشمن فلسفہ بھی پروان چڑھ رہا تھا۔

انگریز اور یورپی دنیا میں ایسے حکمران تھے جن کا ملک یورپ تھا اور وہ دوسرے ممالک کو غلام بنا کر اس سے لوٹی ہوئی دولت اپنے ملکوں کو بھیجتے تھے۔ سو یہ ایک نئی قسم کا سامراج تھا۔ جدید قوم پرستی اور سامراج مخالف نطریات بھی یورپ کے سیاسی فلسفہ کی دین ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی جس میں ہر نسل اور مذہب کے ماننے والوں نے حصہ لیا مگر اس میں شکست کے بعد جب ہندوستان کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے کر براہ راست برطانیہ کی تحویل میں دے دیا گیا تو یورپینز اور انگریزوں میں ہی ایسے لوگ تھے جنہوں نے ہندوستانیوں کے حقوق اور قومی آزادی کی نہ صرف بات کی بلکہ عملی طور پر ایسی جماعتیں بھی بنائیں جو ہندوستانیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتی تھیں۔

برصغیر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگرس کی داغ بیل ڈالنے والا بھی ایک یورپین تھا۔ اسی طرح مسلم لیگ کا پہلا سربراہ بھی ایک برطانوی سامراج کا کاسہ لیس ہز ہائنس آغا خان تھا۔

یورپ میں ایک نئے فلسفہ نے جنم لیا جسے کمونزم یا مارکسزم کہا جاتا ہے۔ اس فلسفہ کے تحت کسی ملک کو دوسرے ملک کو غلام بنانے کا حق نہیں ہے۔ نہ صرف سارے ملک اور قومیں برابر ہیں بلکہ انسانوں میں بھی کسی بھی بنیاد پر تفریق یا امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئے۔ وہ نجی یا ذاتی ملکیت کے خلاف ہیں اور ہر قسم کی طبقاتی تقسیم کے خلاف ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہر شخص کو بنیادی ضروریات زندگی روٹی ،کپڑا،مکان پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

سب سے پہلے فرانس میں پیرس کمیون قائم ہوا مگر وہ تین ماہ تک قائم رہ سکا۔ اس کے بعد 1917 میں لینن کی قیادت میں روس کی کمیونسٹ پارٹی نے بادشاہت کا تختہ الٹ کر سوشلسٹ انقلاب برپا کردیا۔ اس انقلاب اور کمیونزم کے فلسفہ نے پوری دنیا میں حریت پسند لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ غلام ممالک اور کالونیوں میں بھی لوگوں نے اسی طرز پر تنظیمیں بنانی شروع کردیں اور سامراج کے خلاف جدوجہد شروع کر دی۔

ہندوستان کے نوجوان بھی اس انقلابی فلسفہ سے بہت متاثر ہوئے۔ چند نوجوان تو تحریک خلافت کے بعد افغانستان اور روس ہجرت کر گئے۔

کچھ محققین کے مطابق ہندوستا ن کی کمیونسٹ پارٹی 1919 میں قائم ہو گئی تھی۔ برطانوی سامراج پہلے ہی دن سے روسی سامراج کے خلاف تھا اس لئے اس نے روس کے خلاف بہت پریپیگنڈا کیا اور اپنے دفاع کے لئے شمالی کمانڈ بنا لی۔ لیکن جب روس میں اشتراکی انقلاب آگیا اور اس نے قوموں کی آزادی کا نعرہ لگایا تو برطانوی سامراج نے سوویت روس کے خلاف مذہب کے نعرے کا اضافہ کر دیا۔

یہاں کیوں کہ ہندوستا ن میں کمیونسٹ تحریک کی تاریخ لکھنا مقصود نہیں ہے اس لئے یہ عرض ہے کہ ہندوستان کے باشعور لوگوں نے انگریز کے خلاف نہ صرف آزادی کے لئے جدوجہد بلکہ سوشلسٹ انقلاب کا نعرہ بھی لگایا۔

انگریز نے نہ صرف کمیونسٹ پارٹی کو خلاف قانون قرار دیا بلکہ حریت پسند سوشلسٹوں پر مقدمات بھی چلائے۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھوں کا بھی یہی فلسفہ تھا جنہیں پھانسی دی گئی۔

دوسری جنگ عظیم میں جب نازی جرمنی نے سوویت روس پر حملہ کر دیا اور سوویت روس اس جنگ میں شامل ہو گیا تو ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی پر سے پابندی اٹھا لی گئی۔ برصغیر کی تقسیم پر ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان بنانے کی حمایت کی۔

پاکستانی حکمران پہلے دن سے ترقی پسند نظریات کے خلاف تھے اور جلد ہی سرد جنگ میں امریکہ کے اتحادی بن گئے۔ ترقی پسند نظریاتی کارکنوں کو دبانے کے لئے ان کے خلاف ہر قسم کی کارروائیاں کی گئیں۔ 1951 کے پنجاب کے الیکشن میں مزدور اور کمیونسٹ رہنما مرزا ابراہیم کو ہرانے کے لئے دھاندلی کی گئی۔

1951میں ہی نام نہاد راولپنڈی کیس میں کمیونسٹ پارٹی کی ساری قیادت کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کے خلاف حیدرآباد سازش کیس چلایا گیا۔ پھر کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔

ان حالات میں پاکستان کے کمیونسٹوں نے دوسری پارٹیوں کے ذریعہ اپنا مشن جاری رکھا۔ جب پاکستانی قوم پرستوں اور ترقی پسندوں نے مل کر نیشنل عوامی پارٹی بنائی تو سارے کمیونسٹ اس میں شامل ہو گئے۔ حسن ناصر ترقی پسند پاکستان کا خواب لیکر پاکستان آگیا مگر کچھ ہی عرصہ بعد نامساعد حالات کی موجودگی میں وہ واپس ہندوستان چلا گیا۔ مگر اپنے مشن کی تکمیل کے لئے وہ واپس پاکستان آگیا۔

جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس وقت وہ کراچی نیشنل عوامی پارٹی کا سیکریڑی تھا اور پارٹی کے دفتر میں ہی رہتا تھا۔ اسے لاہور کے شاہی قلعہ میں لے جا کر اس پر تشدد کیا گیا اور قتل کر دیا گیا۔ وہ مر تو گیا مگر آج بھی پاکستان کو ایک ترقی پسند ریاست بنانے کا خواب دیکھنے والوں کے دلوں میں بستا ہے۔

پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقدار آکر حسن ناصر کے قتل کی تحقیقات کر وائے گی۔۔ مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا!

اگر کسی نے حسن ناصر کی شہادت پر تفصیل سے پڑھنا ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ اسے مزدور کسان پارٹی کے صدر میجر اسحاق کی کتاب ’حسن ناصر کی شہادت‘ پڑھنی چاہے۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ حسن ناصر کے خیالات اور فلسفہ ہی پاکستان کے بیترین مفاد میں تھا۔ امریکہ سامراج کا پٹھو بن کر پاکستان نے بہت کچھ کھویا ہے۔ اسی لئے آج کے نوجوان کا نعرہ ہے کہ حسن ناصر کا راستہ ہمارا راستہ۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کی ریاست جبر اور بربریت میں اتنی آگے بڑھ گئی ہے کہ اب چند لوگوں کو ہی حسن ناصر کی قربانی یاد رہ گئی ہے۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).