اعتزاز احسن صاحب کے ایک انٹرویو پر تبصرہ


روزنامہ پاکستان لاہور 3 نومبر 2018 میں مکرم خالد ہمایوں صاحب کا ایک کالم ‘ بے معنی سوالات ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے عارف میاں صاحب کی کتاب ‘پاکستان ، آئین اور عدلیہ ‘ کے بعض حصوں پر اظہار ِ ناپسندیدگی فرمایا ہے۔ خاکسار کی ان گذارشات کا مقصد مکرم عارف میاں صاحب کی کتاب پر تبصرہ کرنا نہیں ہے لیکن خالد ہمایوں صاحب نے اس کالم میں اس کتاب کے صفحہ 105اور 106سے ایک اقتباس درج کیا ہے۔ اس اقتباس میں موجود بعض واضح تاریخی غلطیاں ایسی جن کے متعلق حقائق پیش کرنا ضروری ہے ۔ وہ اس کتاب میں مکرم اعتزاز احسن صاحب کے انٹرویو کا ایک حصہ ان الفاظ میں درج کرتے ہیں ۔کہ جب عارف میاں صاحب نے اعتزاز احسن صاحب سے دوسری آئینی ترمیم کے بارے میں سوال کیا(یعنی اس ترمیم کے بارے میں سوال کیا جس میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا) تو اعتزاز احسن صاحب نے کہا

” یحیٰ بختیار(جو اس وقت اٹارنی جنرل تھے )بتاتے ہوتے تھے کہ شاید آئینی ترمیم نہ آتی ۔ جب جرح کر رہے تھے تو امیر جماعت ِ احمدیہ مرزا طاہر نے اس سوال پر کہ حلفیہ بتائیں جو جماعت ِ احمدیہ میں نہیں ہیں آپ انہیں مسلمان سمجھتے ہیں یا نہیں؟ مرزا طاہر نے قومی اسمبلی کے سامنے نفی میں جواب دیا ، جس پر قومی اسمبلی کے ممبران میں ہیجان پیدا ہوا۔اس وجہ سے یہ ترمیم کی گئی۔۔۔”

مکرم اعتزاز احسن صاحب ایک ذمہ دار شخصیت ہیں اور ملک کے وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ جو بھی رائے رکھیں یہ اُن کا حق ہے لیکن کم از کم ان سے یہ توقع تھی کہ وہ کوئی انٹرویو دیتے ہوئے غلط     تاریخی حقائق بیان نہیں کریں گے۔ لیکن ان چند سطروں میں اتنی زیادہ غلطیاں کی گئی ہیں کہ شاید اس سے زیادہ غلطیاں چند سطروں میں نہ سما سکتیں۔اگر انہوں نے یہی فرمایا تھا تو اس کے بارے میں یہ عرض ہے

1۔قومی اسمبلی کی اس سپیشل کمیٹی کی کارروائی1974میں ہوئی تھی اور اُ س وقت مرزا طاہر احمد صاحب امام جماعت ِ احمدیہ نہیں تھے ۔ اُس کارروائی کے دوران تقریباََ تمام سوالات کے جوابات امام جماعت ِ احمدیہ مرزا ناصر احمد صاحب نے دیئے تھے۔

2۔ شاید یہ سوال اُٹھایا جائے کہ مرزا طاہر احمد صاحب اُس وقت جماعت ِ احمدیہ کے امام نہیں تھے لیکن وہ جماعت ِ احمدیہ کے اُس وفد میں شامل تھے جس نے قومی اسمبلی میں جماعت ِ احمدیہ کا موقف پیش کیا تھا اور شاید اسی حیثیث میں انہوں نے یہ جواب دیا ہو۔ تو اس بارے میں عرض ہے کہ اب کئی سال سے یہ تمام کارروائی شائع ہو چکی ہے۔ اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں ہی قومی اسمبلی کی طرف سے یہ کارروائی شائع کی گئی تھی ۔یہ کارروائی Proceedings of the Special Committee of the Whole House Held in Camera to Consider Qadiani Issue.کے نام سے شائع ہوئی ہے۔اس کے صفحہ نمبر1سے 1508تک جماعت ِ احمدیہ کے وفد سے کئے جانے والے سوالات اور ان کے جوابات درج ہیں۔ یہ کارروائی گواہ ہے کہ اس دوارن کسی ایک سوال کا جواب صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے نہیں دیا تھا ۔اس طرح یہ دعویٰ بالکل غلط ثابت ہوجاتا ہے۔

جہاں تک اعتزاز احسن صاحب کے اس دعوے کا تعلق ہے تو اس کی تردید کے لئے یہ دو نکات ہی کافی ہیں جن کو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اعتراض اُٹھانے والوں سے تمام رعایت کرتے ہوئے ، اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ جب یحییٰ بختیار صاحب نے جماعت ِ احمدیہ کے وفد سے اس قسم سوالات کئے تو ان کا جواب کیا دیا گیا تھا۔اب اس بارے میں مکمل حوالوں کے ساتھ حقائق پیش کئے جاتے ہیں۔

یحییٰ بختیار صاحب نے 7اگست 1974کو امام جماعت ِ احمدیہ سے سوال کیا کہ اگر ایک شخص بانی سلسلہ احمدیہ کے دعاوی کو تسلیم نہیں کرتا اس کو آپ کیا سمجھتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی طرف سے جو کارروائی شائع کی گئی ہے ، اس کے مطابق امام جماعت ِ احمدیہ نے یہ جواب دیا :

“جو شخص حضرت مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتا لیکن وہ نبی ِ اکرم ﷺ حضرت خاتم الانبیاء کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے اس کو کوئی شخص غیر مسلم کہہ ہی نہیں سکتا۔”

اتنے واضح جواب کے بعد بھی یحییٰ بختیار صاحب نے یہ سوال دہرایا تو امام جماعت ِ احمدیہ نے پھر یہ واضح جواب دیا :

“میں تو یہ کہہ رہا ہوں Categoricallyہر شخص جو محمد ﷺ کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے وہ مسلمان ہے۔۔۔۔۔اور کسی دوسرے کو اس کا حق نہیں ہے کہ اس کو غیر مسلم قرار دے۔”(کارروائی صفحہ406)

 6اگست کو ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا

“جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ مسلمان ہے۔”(کارروائی صفحہ 240)

اس کالم کے مطابق اعتزاز احسن صاحب نے جس جواب کا ذکر کیا ہے کہ اُس کے بعد ممبران اسمبلی میں ہیجان پیدا ہوا تھا، وہ جواب تو پوری کارروائی میں نہیں پایا جاتا۔ جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے تو اس قسم کا ہیجان 6 اگست کی کارروائی کے دوران اُس وقت پیدا ہوا تھا جب قومی اسمبلی میں کچھ فتاویٰ پڑھے گئے جن میں مختلف فرقوں کے علماء نے ایک دوسرے کو کافر قرار دیا تھا ۔ چونکہ اس وقت پاکستان نازک حالات سے گذر رہا ہے ، اس لئے ان فتووں کے تفاصیل بیان کرنا مناسب نہیں ہو گا۔لیکن یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مفتی محمود صاحب ان فتاویٰ کو بار بار سامنے آنے سے روکنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس صورت ِ حال سے گھبرا کر کہا :

“مسلمانوں کے فرقوں کے درمیان جو تکفیر کا مسئلہ تھا وہ (یعنی امام جماعت ِ احمدیہ) ساری عبارتیں پڑھتا گیا ۔ وہ بالکل سوال سے متعلق بات نہیں تھی۔ تو وہ جو سوال سے بالکل غیر متعلق کوئی بات کہتے ہیں تو اس کو کم ازکم روکنا چاہیے۔۔۔”(کارروائی صفحہ 253)

لیکن اس موضوع پر بات خطرناک ہو سکتی تھی ۔ اس لیے سپیکر صاحب نے انہیں بات مکمل نہیں کرنے دی۔ اور جو کچھ انہوں نے کہا اس سے صرف ان کی بے بسی ظاہر ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا:

“میں کیا کروں جی ؟ ۔۔۔ان کو روکیں نہ جی ۔”(کارروائی صفحہ 255)

ایک ممبر غلام رسول تارڑ صاحب نے کہا:

” جناب، اٹارنی جنرل صاحب کی خدمت میں عرض کروں گا کہ جو فتوے پڑھے گئے ہیں۔مرزا صاحب نے پڑھے ہیں فتوے ان کی تردید علماء ِ دین نے جو کی ہوئی ہے وہ اگر کسی ان ممبران یا مولانا صاحب کے پاس ہو تو ان کی بابت چونکہ تسلی کرنی چاہیے، اگر تردید ہے تو یہاں جو بیان ہوا ہے اس کا اثر کچھ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔”( کارروائی صفحہ257)

یقینی طور پر اعتزاز احسن صاحب کے علم میں ہو گا کہ یہ کارروائی کئی سال سے شائع ہو چکی ہے۔ اس اشاعت میں درج جوابات تو اس دعوے کی تردید کر رہے ہیں جو کہ انہوں نے اپنے انٹرویو میں بیان کی ہے۔ اور جیسا کہ حوالے پیش کئے گئےہیں بالکل برعکس منظر پیش کر رہے ہیں۔ کم از کم ذمہ داری کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اعتزاز احسن صاحب زبانی گفتگو کا حوالہ دینے کی بجائے اس کی اشاعت کا حوالہ دیتے۔اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب نے اپنی پارٹی کے ساتھیوں کے سامنے جو دعوے پیش کئے تھے ،وہ غلط تھے۔ پڑھنے والوں کے سامنے ایک سوال رکھ کر خاکسار یہ گزارشات ختم کرتا ہے ۔ آخر یحییٰ بختیار صاحب اس بات پر کیوں مجبور ہوئے کہ وہ اس کارروائی کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).