حسین نقی تم کیا ہو؟


 17نومبر 2018 کوسپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن بورڈ کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی جس کے اراکین میں سے ایک رکن اور قابل فخر صحافی حسین نقی بھی تھے۔ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ

 کہاں ہیں حسین نقی؟ جس کی وجہ سے جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا نے استعفا دیا؟

دوران سماعت اونچی آواز پر بات کرنے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نقی صاحب سے کہا!

تمہاری جرات کیسے ہوئی ہم تمہیں توہین عدالت کا نوٹس دے دیں ؟

نقی صاحب نے کہا!

میں آپ سے 20 سال بڑا ہوں میری مکمل بات سنیں

چیف جسٹس نے کہا!

تم بد تمیز آدمی ہو عدالت سے معافی مانگو

نقی صاحب نے کہا، میں عدالت سے معافی مانگتا ہوں۔

چیف نے کہا!

حسین نقی کو عدالت سے باہر لے جاو

چیف جسٹس پاکستان کے سوال!

حسین نقی تم کیا ہو؟ کا جواب آسان الفاظ میں یہ ہے کہ

 حسین نقی آئین پاکستان کے پارٹ 1 چیپٹر 2 (آرٹیکل 8 سے 28)جو کہ بنیادی انسانی حقوق کا اعلان کرتے ہیں، کی عملی شکل ہے

یہ وہ آئین ہے جو کہ ریاست کے بنیادی ڈھانچے کی ساخت کا تعین کرتا ہے اور خود سپریم کورٹ کی تشکیل بھی اسی آئین کے تحت ہوئی ہے

حسین نقی اس ادارے کا نام ہے جس نے اپنی جمہوری جدوجہد کے ذریعے اسی آئین کا تحفظ کیا اور فوجی ڈکٹیٹرز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیپٹر 2 میں دیے گئے انسانی حقوق کے تحفظ کی جنگ لڑی جب اعلی عدالتوں کے ججز بھی چیپٹر 2 کی بجائے ڈکٹیٹرز کے پی سی اوکا حلف لیتے رہے اور اتنا سوال اٹھانے کی جرات نہ کر سکے کہ

جنرل ایوب تم کون ہو؟

جنرل یحییٰ تم کون ہو؟

جنرل ضیا تم کون ہو ؟

جنر ل مشرف تم کیا ہو؟

 چیف جسٹس کےحسین نقی صاحب کے بارے میں لفظ” بد تمیز” کے استعمال کے بعد میں بد تمیز کہلانے کے لیے ساری زندگی اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتی ہوں۔ کیوں کہ اس لفظ کا ڈکشنری میں معنی بے معنی ہو گیا ہےاور اس لفظ کا مطلب تاریخ کی کتابوں میں ملے گا اور پاکستان میں بد تمیز وہی ہو گا جونقی صاحب کی طرح ایماندار ہو گا، ترقی پسند تحریک کا علم اٹھائے گا۔ جو بے خوفی سے جمہوریت اور آئین و قانون کی بالا دستی کی جنگ لڑے گا۔ فوجی اور شخصی آمریتوں سے ٹکرائے گا۔ عوامی حق حکمرانی اور بنیادی انسانی کی جنگ جرات اور تسلسل سے لڑے گا ۔ دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ مجھے مولوی افضل قادری یا خادم رضوی کی طرح کا تمیز دار نہیں کہلانا جو ججز کے قتل کے فتوی اور ریاست پر حملے کی دعوت دے اور ملک کو انارکی کی جانب دھکیلے

ویسے بھی حسین نقی، آئی اے رحمان، وارث میر، ایم ضیا الدین اور نثار عثمانی جیسے بڑے صحافیوں کو دیکھ کر اتنی سمجھ تو آ چکی ہے کہ انسان کی عزت کا عہدوں سے تعلق نہیں ہوتا اور بڑے لوگ کبھی ریٹائرڈ بھی نہیں ہوتے۔ یہ لوگ جدوجہد اور جرات کے تمغے سجائے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں

فوجی آمروں کے خلاف لڑنے والے اور شاہی قلعے میں قید کی صعوبتیں کاٹنے والے 82 سالہ حسین نقی نے سپریم کورٹ سے معذرت کر کے فوجی ڈکٹیٹروں کو تحفط دینے والی سپریم کورٹ کی کمزور انا کے کندھو‍ ں پر اپنی جدوجہد کا بھاری بوجھ دھر دیا ہے تاکہ انصاف کے سب سے بڑے ادارے کا بھرم رہ جائےورنہ بات تو وہی ہے

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

اے چاند یہاں نکلا نہ کر

ربیعہ باجوہ
Latest posts by ربیعہ باجوہ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).