یو ٹرن : جناح، باچا خان اور کپتان


بر صغیر پاک و ہند کے سیاسی اکابرین کی تاریخ یو ٹرن سے بھری پڑی ہیں اس تاریخ میں اگر کوئی لیڈر اپنے موقف پر تا دم مرگ قائم رہا تو وہ خان عبد الغفار خان ( باچا خان بابا) تھا۔ گاندھی سے لے کر نہرو تک، جناح سے لے کر بھٹو تک اور نواز شریف سے لے کر عمران خان تک، ہر کسی نے کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی موقع پر یو ٹرن ضرور لئے اور کامیاب بھی رہے۔

محمد علی جناح نے اپنے سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس کے پلیٹ فارم سے کیا۔ کانگریس کے فلسفے کے مطابق انگریزوں سے وطن آزاد کروا کر ایک متحدہ ہندوستان گاندھی کی طرح جناح کا بھی خواب تھا۔ کانگریس کے پلیٹ فارم سے جناح نے ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا اور ہمیشہ کوشش کی کہ دونوں اقوام ”لکھنو معاہدہ 1916“ کے مطابق امن اور شانتی سے رہے لیکن جناح کو اس میں کامیابی نہ ملی۔

ایک طرف گاندھی پوری کانگریس پر چھایا ہوا تھا اور دوسری طرف آل انڈیا مسلم لیگ افق پر بھر پور طریقے سے نمودار ہو چکی تھی۔ اسی دوران قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے سیاسی زندگی کا سب سے بڑا یو ٹرن لیا اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔

یہ ایک عظیم سیاسی یو ٹرن تھا مطلب ایک نظریہ جس میں ”ہندو مسلم ایک قوم ہیں“ کو خیر اباد کہا اور مخالف نظریہ جس میں ”ہندو مسلم دو الگ قومیں ہیں“ کو گلے لگایا اور یہی وہ یوٹرن تھا جس کی وجہ سے اج ہمیں پاکستان ملا ہے۔ تصور کریں کہ قائد اعظم یو ٹرن نہ لیتے اور کانگریس کے ساتھ جڑے رہتے تو شاید اج ہم جناح کی اتنی ہی ”عزت“ کرتے جتنی ہم کانگریس کے باچا خان اور مولانا ابو کلام آزاد کی کرتے ہیں۔

اسی بر صغیر پاک و ہند میں ایک لیڈر ایسا بھی گزرا ہے جس نے کبھی زندگی میں یو ٹرن نہیں لیا۔ انگریزوں سے لڑا اور کیا خوب لڑا۔ ہتھیار کے بغیر عدم تشدد کے فلسفے پر قائم رہ کہ جنگ آزادی کا یہ گمنام ہیرو باچا خان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن باچا خان کی سیاست ہمیشہ گاندھی جی کی سیاست کے زیر تسلط رہی۔

ایک دفعہ کانگریس میں شمولیت اختیار کی تو پھر کبھی واپس مڑ کر نہیں دیکھا۔ کانگریس نے ہمیشہ باچا خان کو اس بات پر قائل کر کے رکھا کہ صوبہ سرحد یا تو آزاد وطن بنے گا یا پھر ہندوستان میں شامل رہے گا باچا خان بھی گاندھی اور کانگریس کی باتوں پر یقین کرتے چلے گئے۔ اور پھر گاندھی نے جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پلان پر باچا خان سے مشورہ کیے رضا مندی ظاہر کی تو اس پلان میں نہ تو صوبہ سرحد ایک الگ ریاست کے طور پر شامل تھا اور نہ ہی ہندوستان کا حصہ بلکہ اسے پاکستان کا حصہ دکھایا گیا۔ اس پر باچا خان نے ایک عظیم جملہ کہا تھا کہ ”کانگریس نے صوبہ سرحد کے سرخ پوشوں سے بے وفائی کی اور ہمیں بھیڑیوں کے سامنے اکیلا چھوڑ دیا“۔

اب تصور کریں کہ باچا خان اگر یو ٹرن لیتا تو کیا ان کو کانگریس کی بے وفائی کا شکوہ کرنا پڑتا؟ اگر باچا خان کانگریس سے وفاداری پر یو ٹرن لے لیتا اور احتجاج کرتا یا سیاسی حکمت عملی تبدیل رکتا تو کم ازکم وہ گاندھی کو دباؤ کا شکار ضرور کر پاتے لیکن باچا خان نے اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل نہیں کی یعنی کہ یو ٹرن نہیں لیا جس کی وجہ سے وہ اپنی سیاسی منزل تک نہیں پہنچ سکے۔

اب اگر موجودہ وزیراعظم عمران خان اپنی بنائی ہوئی حکمت عملی پر سختی سے عمل پیرا رہے تو منزل کی طرف سفر مشکل کا شکار ہو سکتا ہے کیونکہ حالات اور واقعات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اپنی حکمت عملی کو حالات اور واقعات کے مطابق ہی تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ سامنے دیوار سے بندہ ٹکر مار سکتا ہے۔

ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ بندہ اپنے مشن اور وژن سے کبھی پیچھے نہ ہٹے تو جہاں تک مشن اور وژن کا تعلق ہے عمران خان کا مشن کرپشن سے پاک پاکستان ہے اور وژن ایک فلاحی ریاست ہے اس مشن اور وژن کو حاصل کرنے کے لئے کبھی یو ٹرن لینا پڑھے گا، کبھی سفر روکنا پڑے گا اور کبھی سفر کے زرائعے تبدیل کرنے پڑیں گے لیکن مشن اور وژن تبدیل نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).