لیڈی ریڈنگ ہسپتال، ایک تجربہ ایک مشاہدہ!


پشاور کی مرکزی شاہراہ پر چلتے جائیں تو پنج ستارہ ہوٹلوں اور پراسرار سرکاری دفاتر پر سے آپ کی نظر پھسلتی چلی جائے گی۔ عوام کی تقدیر جس عمارت میں لکھی جاتی ہے، وہ بھی آپ کی نظر کھینچ سکتی ہے۔ جو چیز آپ کی نظر روک سکتی ہے وہ صوبائی اسمبلی سے کچھ پہلے بائیں جانب بلندی پر قائم ایک قدیم قلعہ ہے۔ قلعہ بالا حصار! آپ اگر تاریخ نہیں جانتے تو بھی آپ کا شعور محسوس کرتا ہے کہ ہو نہ ہو یہ عمارت برسوں کی تاریخ کی گواہ ہے۔

اگر آپ تاریخ جانتے ہیں تو آپ بلیک اینڈ وائٹ پردے پر چلنے والی ایک فلم میں کھوجائیں گے۔ فلم سیٹ قلعہ بالاحصار ہی رہے گا مگر کردار بدلتے چلے جائیں گے۔ کبھی درانی سلطنت کے شاہان یہاں ٹھہرتے نظر آئیں گے تو کبھی مغل بادشاہ تخت نشیں ملیں گے۔ کبھی ظہیرالدین بابر کا لشکرپورے تام جھام کے ساتھ یہاں سستانے کو رک رہا ہوگا توکبھی احمد شاہ ابدالی کے وزرا یہاں بسیرا کرتے نظرآئیں گے۔ کبھی شیرشاہ سوری کا لشکر قلعے کی اینٹ سے اینٹ بجارہا ہوگا تو کبھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کا لشکر قلعے کی فصیلیں اٹھا رہا ہوگا۔

قلعے کی فصیلوں سے تاریخ کی آنکھ نے بہت مناظر دیکھے۔ اس میں ہرمنظر بے یقینی اور سراسیمگی کامنظر ہے۔ ہمایوں نے بلند فصیلوں پر کھڑے ہوکر اس بات کا جائزہ لیا تھاکہ توپوں کا رخ کس جانب رکھنا مناسب ہوگا۔ انیس سو چھبیس میں ٹھیک اسی مقام پرمادام ایلس ریڈنگ اپنے شوہر وائسرائے ریڈنگ کے ساتھ کھڑی تھیں۔ اس بار بھی فصیلِ شہر سے جائزہ لیا جارہا تھا، مگر اس جائزے میں زاویے تعمیرکے تھے۔ خاتون اپنے شریک حیات کو بتارہی تھیں کہ شفا خانہ قائم کرنے کے لیے زمین کا یہ سامنے والاٹکڑا بہت مناسب ہوگا۔ خاوند نے حامی بھری اورلیڈی ریڈنگ ہسپتال قائم ہوگیا۔ وقت کی ترتیب میں قلعہ بالاحصار کی توپیں خاموش ہوتی چلی گئیں۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے روزن سے امید کی کرنیں پھوٹتی چلی جارہی ہیں۔

سرکاری ہسپتالوں سے متعلق یہ تاثر پختہ ہوچکا ہے کہ یہاں کوتاہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ڈاکٹروں سے متعلق یہ گمان طے ہوچکا ہے کہ یہ کچھ کرتے ہیں توبس غفلت ہی کرتے ہیں۔ سرکاری اور نجی ہسپتالوں کا تقابل کرتے ہوئے ہم ایک بات بھول جاتے ہیں۔ نجی ہسپتال کے پاس وسائل کتنے ہی زیادہ ہوں، وہاں ایمرجنسی میں ڈیڑھ سو سے دو سو مریض دیکھے جاتے ہیں۔ سرکاری ہسپتال کے پاس وسائل کتنے ہی محدود کیوں نہ ہوں، وہاں کی ایمرجنسی تین ہزار سے چار ہزار مریضوں کو ہنسی خوشی نمٹاتی ہے۔

تمام بڑے شہروں میں موجود سرکاری ہسپتال شہر بھر کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ شاید لیڈی ریڈنگ ہی ایسا ہسپتال ہے جو صوبے بھر کا بوجھ بسروچشم اٹھارہا ہے۔ صوبے بھر کا ہی کیا، ایمرجنسی مینیجررفیع اللہ خان مروت تو کہتے ہیں کہ سرحد کے اس پار پکتیکا اور جلال آباد تک سے مریض آتے ہیں۔ وجہ پوچھنے پر بتاتے ہیں ”اس کی چار وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ علاج کا معیار ہے۔ دوسری وجہ تمام سہولیات کی فیس محض انیس روپے ہونا ہے۔ تیسری وجہ ہسپتال سے متعلق صوبے بھر میں قائم برسہا برس سے چلا آنے والا مثبت تاثر ہے۔ چوتھی وجہ اس ہسپتال سے قائم لوگوں کی تاریخی انسیت ہے“۔

رفیع اللہ خان کی بتائی ہوئی وجوہات پر اگر نگاہ ڈالیں تو یہ اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے کہ لیڈی ریڈنگ کو کس قسم کی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ انیس روپے میں ہر درد کی دوا ملنے کی وجہ سے ہر وہ شہری لیڈی ریڈنگ کا رخ کرنے لگا ہے جس کی جیب اسے چارہ سازوں کا رخ کرنے سے روکتی تھی۔ پھرجو بھی ہسپتال میں آتا ہے اس کے ساتھ روایت نبھانے کو پورا لاؤ لشکر آتا ہے۔ غمگساروں کو یہ سمجھانا مشکل ہوتاہے کہ آپ کی غمگساریاں طبی امداد میں خلل ڈالتی ہیں۔

لوگ صرف یہ جانتے ہیں کہ عیادت سنت وتہذیب ہے۔ اور مریض سے کچھ فاصلے پرکھڑا ہونا بداخلاقی ہے۔ یہ تصور اس کے علاوہ ہے کہ ڈاکٹرزندگی کا ضامن ہوتا ہے۔ باہر تیمارداروں کو بجا طور پر اپنے اپنے عزیزوں کی فکر ہوتی ہے۔ مگراندر مسیحاوں کو سب کے عزیزوں کی فکر ہوتی ہے۔ مسیحاوں کے لیے اتنا دکھ کافی ہوتا ہے کہ وہ ایک انسان کو بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یہ دکھ پھر اس کے سوا ہوتا ہے کہ لوگ زندگی کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہیں مگر موت کو ڈاکٹر کی دانستہ کوتاہی مانتے ہیں۔

سرکاری ہسپتال زندگی کے بے تکلف آستان ہوتے ہیں۔ جو بھی آئیں، جتنے بھی آئیں، جب بھی آئیں کسی کو انکار نہیں کرتے۔ وہ کسی کو کیا بتائیں کہ صاحب یہ جو وسائل کی کمی ہے اس کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں۔ یہ ڈاکٹر جسمانی، ذہنی اور مکالماتی تشدد سہہ کر واپس اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ دیگر ہسپتالوں کی طرح لیڈی ریڈنگ میں بھی ایمرجنسی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر حامد شہزاد یہ سوال نہیں اٹھاتے کہ آنے والوں کے آگے رکاوٹیں کیسے قائم کی جائیں۔

وہ پوچھتے ہیں کہ نظام میں ایسی کیا تبدیلیاں کی جائیں کہ دشواریاں کم سے کم ہوجائیں۔ ایسے کئی تعمیری سوالات ہیں جو بہی خواہوں نے گاہے بگاہے اٹھائے ہیں۔ یہ سوالات تشدد کے رجحان میں کمی لانے اور سیکیورٹی کو بہتر سے بہتر کرنے سے متعلق تھے۔ نطام میں کچھ ایسی تبدیلیوں سے متعلق تھے جوتشخیص کے مرحلوں میں ہمواریاں پیدا کرسکیں۔ بین ا الاقوامی ریڈکراس کمیٹی نے ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ آج لیڈی ریڈنگ ہسپتال جہاں کھڑا ہے، وہاں متعدد سوالات کے جوابات ٹھیک ٹھیک نکل آئے ہیں۔

ڈاکٹر حامد شہزاد ایک بے تکلف سی محفل میں یونہی ایک بات کہہ گئے، مگر جس المیے کی طرف اشارہ کیا بہت سنجیدہ نوعیت کا تھا۔ کہنے لگے ”ہم اگر دن میں تین ہزار مریض دیکھتے ہیں تو ان میں سے صرف ڈیڑھ دوسو ہی ایمرجنسی مریض نکلتے ہیں۔ یہ بتانا بہت ضروری ہوگیا ہے کہ ایمرجنسی آخر ہوتی کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک میں ایمرجنسی ڈپارٹمنٹس کو جو کام کرنے پڑ رہے ہیں ان کا تعلق سرے سے ایمرجنسی سے ہے ہی نہیں“۔

اسی المیے کا تجزیہ کرنے کے لیے بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی نے عالمی معیارِ صحت کا تجربہ رکھنے والے ماہرین کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال مدعو کیا۔ طویل تجزیاتی اور تحقیقی مشق کے بعد ایک ایسے ٹریاج سسٹم کی ضرورت پر زوردیا گیا جو متحرک اور مستعد طبی عملے پر مشتمل ہو۔ تشویش ناک حالت میں لائے گئے مریضوں کے تیمارداروں کو تو پرچی کے جھنجھٹ سے ویسے بھی نکال دیا گیا ہے۔ فرش پر کھنچی ہوئی سرخ لکیر تیمارداروں کی رہنمائی کرتی ہوئی سیدھا ٹراما یونٹ میں پہنچادیتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2