تاریخ کا قرض بڑھتا جا رہا ہے


معاملات نازک بھی ہیں اور حد درجہ اذیت ناک بھی۔ طاقت کے کھیل میں ایسے مقامات بھی آتے ہیں جہاں دلیل کو خاموش کر دیا جاتا ہے، اصول کو جلا وطن کر دیا جاتا ہے اور ضمیر کو کمرے سے نکال دیا جاتا ہے۔ دلیل کی توانائی کا سرچشمہ تاریخ ہے۔ تاریخ کے دو حصے ہیں۔ ایک جو گزر چکا اور دوسرا جسے ابھی ظہور پذیر ہونا ہے۔ دلیل بظاہر بے دست و پا ہو سکتی ہے لیکن وہ تاریخ سے رجوع کرتی ہے۔ زیادہ انتظار کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن اس بیچ میں ہم آپ کیا کریں؟ یاراں مگر ایں شہر شما سنگ نہ دارد۔ آئیے، تاریخ سے رجوع کرتے ہیں۔

دس مئی 1955ء ہماری تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی تھی۔ سپیکر مولوی تمیز الدین نے بصد مشکل کراچی چیف کورٹ تک رسائی حاصل کی۔ جسٹس کاسٹنٹائن نے گورنر جنرل کے حکم کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ مرکزی حکومت نے فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کی۔ جسٹس محمد منیر نے تکنیکی بنیاد پر فیصلہ دیا کہ سندھ چیف کورٹ کو مقدمہ سننے کا اختیار نہیں تھا۔ مولوی تمیز الدین کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ ٹھیک پانچ برس بعد 22 اپریل 1960ء کو جسٹس محمد منیر نے لاہور بار ایسوسی ایشن سے الوداعی خطاب میں فرمایا ’مئی 1955ء کا فیصلہ سخت دباؤ میں دیا گیا تھا۔ اگر عدالت غلام محمد کا حکم مسترد کرتی تو اس فیصلے پر خون خرابے کے بغیر عمل درآمد ممکن نہیں تھا۔ دعا ہے کہ آئندہ کسی عدالت کے منصفوں کو ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے، جسے عدالتی ایذا رسانی کہنا چاہئیے‘۔ حیرت ہے کہ اس تاریخی تقریر میں جسٹس منیر نے ڈوسو کیس کا حوالہ نہیں دیا۔ ڈوسو بنام وفاق پاکستان قتل کا ایک عام مقدمہ تھا جس میں 1956 کے آئین کے تحت تیرہ اکتوبر 1958ء کو سماعت ہونا تھی۔ 7 اکتوبر کو سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے آئین منسوخ کر دیا۔ یہ وہی آئین تھا جس کی رو سے سپریم کورٹ قائم ہوئی تھی۔ عدالت کو اب یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا 56ء کے دستور کی منسوخی جائز ہے؟ عدالت نے 27 اکتوبر 1958ء کو کیلسن کے نظریہ ضرورت سے استفادہ کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ کامیاب انقلاب خود اپنا جواز ہوتا ہے۔ آسٹرین ماہر قانون جسٹس کیلسن تب حیات تھے۔ روایت کے مطابق انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی عدالت ان کے بیان کردہ اصول قانون کو سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 27 اکتوبر 1958 کی صبح جسٹس منیر نے ڈوسو کیس کا فیصلہ سنایا اور اسی رات ایوب خان نے سکندر مرزا کو عہدہ صدارت سے معزول کر دیا۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم بتاتے تھے کہ جسٹس منیر ڈوسو کیس کا فیصلہ سنا کر گھر پہنچے تو شدید ذہنی دباؤ کے باعث بلند فشار خون کا شکار ہو گئے۔ چند گھنٹے پہلے تک کمرہ عدالت میں تمکنت سے قوم کی تقدیر پر مہر لگانے والا صوفے پر نڈھال پڑا تھا۔ جس طرح دباؤ کی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں، دباؤ کے نتائج بھی گوناگوں ہوتے ہیں۔

ناصر کاظمی ریڈیو سے بطور سٹاف آرٹسٹ منسلک تھے۔ رت جگے کا شاعر قدرے تاخیر سے دفتر پہنچتا تھا۔ ایک بزعم خود افسر نے ایک روز اعتراض کیا تو ایک ماتحت نے کہا، ’سر، ناصر کاظمی کا انتقال ہو گا تو صدر پاکستان تعزیتی پیغام جاری کریں گے۔ آپ وفات پائیں گے تو شاید ریڈیو کا کوئی چپراسی بھی جنازے میں شریک نہ ہو‘۔ جنازوں کے ذکر سے ایک اور افسر اعلیٰ یاد آ گئے۔ بہت بڑے افسر تھے۔ پاکستان کی تقدیر ان کے سگریٹ کے مرغولوں میں بنتی اور بگڑتی تھی۔ ماتحت عملے کو حکم تھا کہ اس نابغہ روزگار ہستی کے بارے میں جس قدر معلومات مل سکیں، جمع کی جائیں۔ معمولی سے معمولی تفصیل دستاویز ہونی چاہئیے۔ تمام شواہد، تصاویر، تقاریر اور سرکاری احکامات اس عرق ریزی سے جمع کئے گئے کہ یہ ذخیرہ کمپیوٹر کے 98 گیگا بائٹ کو پہنچ گیا۔ ایک روز صاحب ریٹائر ہو گئے۔ نئے صاحب مسند نشین ہوئے تو اہلکاروں نے ان تاریخی نوادرات کے بارے میں دریافت کیا جن کے بوجھ سے کمپیوٹر لڑکھڑا رہا تھا؟ جواب ملا کہ ایک تصویر کو چھوڑ کر باقی مواد حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ پوچھا گیا کہ ایک تصویر باقی رکھنے کی کیا لم ہے؟ بتایا گیا کہ صاحب انتقال کریں گے تو یہ تصویر پریس ریلیز کے ساتھ جاری کی جائے گی۔

آئیے کراچی چلیں۔ بارہ ستمبر 1962ء کو گورنر امیر کالاباغ کے حکم پر کراچی یونیورسٹی کے بارہ طالب علموں کو شہر بدر کر دیا گیا۔ ان میں ڈاکٹر سرور، معراج محمد خان، فتحیاب علی خان اور حسین نقی سرفہرست تھے۔ جرم یہ تھا کہ ان روشن خیال طالب علموں کی ذکاوت اور پامردی سے اہل حکم بدمزہ ہوتے تھے۔ ایک ماہ بعد شہر بدری کے احکامات واپس لیے گئے۔ کراچی ریلوے سٹیشن پر ان سپوتوں کا تاریخی استقبال ہوا۔ روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحے پر رئیس امروہوی کا قطعہ شائع ہوا۔

تم نے ثابت کیا عزم و عمل سے اپنے

زندگانی ہے حیات عملی – زندہ باد

تم ہو ایثار و صداقت کا ہراول دستہ

طالبات و طلبہ، زندہ و پائندہ باد

ایک روز کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین نے حسین نقی کو طلب کرکے کہا کہ مجھے بارہ بلوچ طلبا یونیورسٹی سے خارج کرنا ہیں۔ تم اپنی فتنہ پروری سے واپس نہیں آؤ گے۔ بتاؤ انہیں نکالوں یا تمہیں؟ حسین نقی نے کہا، بلوچ بھائیوں کو یونیورسٹی سے نہ نکالیں، مجھے خارج کر دیجیے۔ تین برس تک یونیورسٹی میں داخلے کا اذن نہیں ملا۔ صحافت میں آئے تو حیدر آباد ائر پورٹ پر ایوب خان سے ایسا دوٹوک مکالمہ ہوا کہ تیس سالہ حسین نقی کی شجاعت ضرب المثل قرار پائی۔ 1965ء کے انتخابات میں سید مودودی سے برملا کہا کہ آپ فاطمہ جناح کی حمایت نہیں کر رہے، مادر ملت کی آڑ میں سیاسی رونمائی کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ بھٹو صاحب نے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے اقتدار کا مطالبہ کیا تو حسین نقی پکارے، آپ کا تو حکومت پر حق ہی نہیں بنتا۔ بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو حسین نقی اور مجیب الرحمن شامی ساہیوال جیل کی ایک ہی بیرک میں بند تھے۔ جنرل ضیاالحق کا ورود ہوا تو حسین نقی شاہی قلعے میں رکھے گئے۔ گجرات جیل میں بند کیے گئے۔ حسین نقی اپنے نام کی نسبت سے حسینؓ عالی مقام کے ویو پوائنٹ کی لاج رکھتے رہے۔ مارچ 1991 میں انسانی حقوق کمیشن سے وابستہ ہوئے۔ تب جسٹس ریٹائرڈ دراب پٹیل کمشن کے سربراہ تھے۔ جنوری 2017ء میں انسانی حقوق کے اس مورچے سے محترم آئی اے رحمان کے ساتھ سبکدوش ہوئے تو درویش بے نشاں نے جنگ اخبار کے ادارتی صفحے پہ ایک کالم لکھا تھا، ’یہ کرسیاں خالی رہیں گی‘۔ بات یہ ہے کہ مقام منصب کا محتاج نہیں ہوتا۔ منصب کے چہرے بدلتے رہتے ہیں، مقام مستقل ہے۔ شیخ سعدی کے عرصہ حیات میں کوئی بیس بادشاہ گزرے، آج کسی کو ایک کا نام یاد نہیں۔ سعدی کا گلستان سرسبز ہے۔ آج کل ہمارے ملک میں ’ادارے‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ ادارے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کی اہلیت اور کارکردگی کا محاکمہ تاریخ پر قرض ہے۔ معاشرہ ان اداروں کے سہارے آگے بڑھتا ہے جو خلق خدا کی خدمت سے تاریخ کا قرض اتارتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ رات ابھی بہت باقی ہے اور تاریخ کا قرض بڑھتا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).