حسین نقی اور انصاف کا دوہرا معیار


آج کل سوشل میڈیا ہو یا پھر ابلاغ کے دوسرے ذرائع، ایک ہی نام زیر گردش ہے اور وہ نام عظمت، عزت و استقامت کا نشان حسین نقی صاحب کا نام ہے۔ میڈیا سے وابستہ یا جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والے، میڈیا کی آزادی، شہری اور بنیادی حقوق، سیاسی جماعتیں ہوں یا عوامی ادبی حلقے، یا پھر سول سوسائٹی، کون ہے جو حسین نقی کے نام سے واقف نہ ہو۔ ان کی بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت کے لئے جدجہد اور ایوبی آمریت سے لے کر آج تک کاوشوں سے کون واقف نہیں۔

ہم میڈیا سے وابستہ افراد، چاہے ان کے ساتھ کام کیا ہو یا صرف چند لمحوں کے لئے ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہو، نقی صاحب کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ جب ان کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج، چیف جسٹس آف پاکستان، عزت مآب جناب ثاقب نثار کا بھری عدالت میں للکارنا اور پھر عملے کو حکم دینا کہ انہیں عدالت سے باہر نکال دیا جائے ہم سب پر بجلی گر جانے کے مترادف رہا۔ اور ہوا بھی یہی کہ چھوٹا ہو یا بڑا صحافی، ادنیٰ ہو یا اعلیٰ صحافی، سینئر ہو یا جونیئر صحافی، ہر فرد نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اعلیٰ عدالتی شخصیت کا احترام ملحوظ خاطر رکھ کر تنقید کی۔ اور نقی صاحب جو اس وقت اسی سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں کے ساتھ عزت احترام کے چند الفاظ ادا کر دینے کا مطالبہ کیا۔

لاہور کے چند سینئر دوست جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ارکان آج چیف صاحب کے سامنے پیش ہوے، جنھوں مندرجہ ذیل پوسٹ اپنے فیس بک پر پوسٹ کی

”جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ارکان محمد شہباز میاں،ارشدانصاری، ضیاءاللہ نیازی، سینئر صحافی شفیق اعوان، گوہر بٹ اور کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پیش ہوئے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے محمد شہباز میاں نے کہاکہ عدالت کا احترام سب پر واجب ہے مگر آپ کے رویے کے باعث پوری صحافتی برادری کی دل آزاری ہوئی حسین نقی صاحب ہماری تین نسلوں کے استاد ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ہماری کوئی انا نہیں۔ حسین نقی آپ کے استاد ہیں تو ہمارے بھی استاد ہیں۔ آپ کیا چاہتے ہیں کہ انھیں دوبارہ ہیلتھ کیئر کمیشن میں شامل کر کے دادرسی کی جائے۔ جس پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے چیف جسٹس کا شکر یہ ادا کیا اور کہا کہ حسین نقی عہدوں سے بالاتر ہیں۔ صرف ان کی عزت واحترام مقصود ہے” چیف صاحب کے ان الفاظ میں بھی تکبر جھلکتا نظر آتا ہے پر ہم ان الفاظ کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

میری حسین نقی صاحب سے چند ملاقاتیں مختلف فورمز ہوتی رہی ہیں۔ اور انہیں ہمیشہ شفیق لیکن بااصول شخص پایا۔ عدالت میں بھی چیف صاحب کے سامنے معافی صرف اس لئے مانگی ہو گی کہ وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ ہیں اور عدالت کی عزت اور احترام ہم سب پر فرض ہے۔ عدالت کی کرسی پر بیٹھے ہر جج کی عزت احترام بھی ان کا حق ہے۔ اسی طرح عدالت میں پیش ہونے والا خاص کر کے سینئر سٹیزن کی عزت بھی ہم سب پر فرض ہے، چاہے انصاف کی کرسی پر بیٹھا جج ہی کیوں نہ ہو۔

سن دوہزار سات میں دلی کی سارک کانفرنس مجھے آج بھی یاد ہے جہاں میں کانفرنس کی کوریج کے لئے گیا ہوا تھا جبکہ حسین نقی صاحب سیفما کانفرنس میں شرکت کے لئے دلی میں تھے۔ سارک کانفرنس کے خاتمہ کے بعد سب صحافی جو سارک کانفرنس کی کوریج یا سیفما کانفرنس میں شرکت کے لئے وہاں تھے اکھٹے واپس لاہور پہنچے۔ حسین نقی صاحب بھی واپس آنے والے صحافیوں میں شامل تھے۔ لاہور ایرپورٹ پر ایک صحافی نے لائن توڑ کر امیگریشن کرانے کی کوشش کی تو میں نے اعتراض کیا اور کچھ سخت جملے بھی کہے۔ نقی صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ تم نے بہت اچھا کیا کہ ان کی غلط حرکت کی نشان دہی کی، پر سخت الفاظ کے استعمال سے گریز کرو۔ میں نے فوری معذرت کی اور خاموش ہو گیا۔ کہنے کا مقصد یہ کہ اصول ضابطوں کی پاسداری اور مزاج کی نرمی اور شائستگی نقی صاحب کی زندگی کا خاصہ ہے۔

رہا پنجاب ہیلتھ کیئر بورڈ کی رکنیت اور اس کے چیرمین کے عہدہ چھوڑ دینے کا قصہ تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بورڈ کے اجلاسوں میں بحث مباحثے نہیں ہوا کرتے، اور کیا ان میں اکثر اوقات سخت جملوں کا تبادلہ نہیں ہو جایا کرتا؟ اور کیا حسین نقی صاحب نے بورڈ کے چیئرمین عامر رضا خان جو سابق جج بھی ہیں سے استعفا دینے کا مطالبہ کیا تھا اور کیا سابق جج کو ہی جج سے انصاف ملنا چاہیے تھا، کیا حسین نقی کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ انہیں اپنا موقف بیان کرنے کا پورا موقع دیا جاتا؟

 اگر انصاف کی فراہمی کے یہی دوہرے معیار برقرار رہے تو لوگوں کا انصاف کی فراہمی کے اداروں پر رہا سہا اعتبار بھی جاتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).