بینا کی نابینا لاٹھی


بینا ایک چھوٹے سے قصبے میں انیس سو پچاس میں پیدا ہوا۔ بینا کا نام بینا نہ تھا یہ نام تو معاشرے نے اسے عطا کیا۔ اس کا اصلی نام جو اس کے والد نے اس کی پیدائش پہ رکھا وہ فقیر محمد رکھا تھا۔ بچپن سے اسے اپنے نام سے شدید نفرت تھی۔ اس کے نزدیک یہ نام طوق کی طرح محسوس ہوتا۔

وقت گزرتا گیا فقیر جوان ہوا اس نے بہت محنت سے اپنے نام کو چھوٹا کیا اور اس میں رانا کا اضافہ کیا اب اسے شہر جانا تھا جہاں اس نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں، کالج میں داخلہ لیتے وقت اس نے اپنا نام کچھ یوں تحریر کیا ”ایف، ایم رانا“۔ جب اس نے اپنا نام درج کیا وہ خوشی سے جھوم گیا کہ آج سے وہ فقیر محمد نہیں ہے۔ اپنی پہلی کلاس میں اس نے نہایت فخر سے اپنا تعارف کروایا۔ رانا لگا لینے سے وہ اب خاندانی بھی ہو گیا تھا۔

فقیر محمد کے دس بھائی تھے، فقیر محمد اپنے بھائیوں کو بڑھا چڑھا کر شہر کے قصے سناتا سب حیرت سے فقیر کی باتیں سنا کرتے۔ اپنے گاؤں میں بھی اب فقیر محمد کی ایک پہچان بن چکی تھی۔

کالج کہ زمانے میں ہی اسے کسی نے سوشل ویلفیئر کی طرف آنے کا مشورہ دیا۔ اس زمانے میں سوشل ویلفیئر کا کام پاکستان میں نیا نیا آیا تھا۔ اپنے ادارے میں بھی اس نے تیزی کے ساتھ کام سیکھا اور ایک این جی او سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی طرف بڑھتا گیا۔ فقیر نا ہی خوش شکل تھا نا ہی ذہین فقط آگے بڑھنے کا جنون اس کی ترقی کی منازل تیزی سے طے کرا رہا تھا۔

انیس سو اسی کی دہائی میں کوٹے کی بنا پر اس کی پنجاب یونیورسٹی میں نوکری ہوگئی یہ دن اس کی فتح کا دن تھا۔ اس روز وہ گاؤں گیا تو ڈھول باجے کے ساتھ دھوم دھام سے اس کا استقبال ہوا۔ اسی روز اس نے اپنے گھر والوں کو ڈیرہ غازی خان سے لاہور منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔

تین کمروں کے سرکاری کوارٹر میں وہ اس کے بیوی بچے اور سارے بھائی بمعہ والدہ منتقل ہوگئے۔ فقیر اپنے بھائیوں کو شہر کے آداب سکھانے میں لگ گیا۔ چند سالوں میں سب ہی مختلف سرکاری اداروں میں چھوٹے موٹے ملازم ہوگئے۔

اب آگے بڑھنے کے لیے فقیر کو ایک اور مشکل درپیش کہ پروفیسر بننا ہے تو پی ایچ ڈی کرو جیسا کہ ہم نے پہلے ہی بتایا کہ ترقی کا جنون اس کا ایندھن تھا ذہانت کا اس سے دور دور کابھی واسطہ نہ تھا۔

سوشل ویلفیئر کے زمانے میں اسے ایک خاکروب سے ملنے کا موقع ملا۔ خاکروب نے اس سے سفارش کی تھی کہ میرا بیٹا نابینا ہے لیکن ذہین ہے آپ اسے کسی ویلفیئر کے ادارے میں ڈال دیں یہ خود ہی پڑھ کے آگے نکل جاے گا بس تھوڑا سا آسرا چاہیے۔

نابینا انتہائی تیز اور ذہین لڑکا تھا وہ انگریزی، اردو، فرانسیسی اور اطالوی زبانوں کا ماہر ہو گیا تھا اور بینا کو اپنا محسن جان کے اس کے لیے کچھ بھی کر جاتا۔ بینا نے نابینا سے اپنا پی ایچ ڈی کا تھیسیس لکھوایا ساتھ ہی ڈیل کی کہ میں ڈگری پاتے ہی سب سے پہلے تمہیں پی ایچ ڈی کرواؤں گا۔ نابینا نے فقیر محمد کی آفر پے عمل کیا دونوں ہی آگے پیچھے پی ایچ ڈی ہو گئے۔ ایک ہی ادارے میں اسسٹنٹ پروفیسر۔

نابینا فقیر محمد کی لاٹھی تھا۔ وہ ہر جگہ فقیر کے لیے حاضر رہتا۔ ایچ ای سی کا نیا نیا دور آیا۔ یونیورسٹی ٹیچرز کے دن بدلے، تنخواہیں دو گنا بڑھ گئیں، بیرون ملک کے دورے، فقیر اور خاکروب کا لڑکا دنیا کے مختلف ملکوں کی سیر کر آئے۔ وہ ساری تمنائیں پوری کیں جو دونوں کا خواب تھیں۔

ان تمام دوروں میں بینا اپنے نابینا شاگرد کی پیدائش سے لے کر اس کے پسماندہ بچپن اور والد کا پیشہ پھر اپنے نا ختم ہونے والے احسان کی لسٹ سناتا اور تماشائیوں سے داد و تحسین وصول کرتا۔ باہر کے دوروں سے دونوں ہی ہر طرح سے انٹرٹینمنٹ حاصل کرنے کے عادی ہو گئے تھے۔ نابینا کی آواز بہت ہی خوبصورت تھی وہ باتیں بھی اچھی کرتا ذہانت سے بھرپور۔ بس اسی اعتماد میں ایک روز اس پے اس کی ایک طالبہ نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا۔

الزام کچھ اس قدر سخت نوعیت کا تھا کہ فوری طور پر سسپنڈ کر دیا گیا۔ چونکہ وہ ہیش ٹیگ می ٹو سے پہلے کا زمانہ تھا اس لیے یہ خبر صرف اس کے ڈیپارٹمنٹ کے گرد و نواح تک ہی محدود رہی۔ فقیر محمد نے حفظ ماتقدم کے طور پر نابینا سے کنارہ کشی اختیار کی اور اس واقعے کو کچھ یوں بیان کیا کہ کم ذات کے ساتھ کبھی احسان نہ کرو، میں نے اس بھنگی کی اولاد کو پڑھایا، پی ایچ ڈی تک کروایا اور اس نے اپنی ذات دکھائی۔

نابینا چونکہ خدادا صلاحیت رکھتا تھا مختلف زبانوں کا ماہر بھی تھا، اس پہ ایک در بند ہوا ہزار کھلے۔ فقیر محمد کی آل اولاد بہت کثیر تھی، یونیورسٹی میں اس کے بچے ٹیچر بننے کی اہلیت نہ رکھتے تھے اس لیے اس نے ان کو غیر تدریسی عملے میں بھرتی کروائی ایک بھائی کو ٹیچر بھرتی کروایا ایک پسندیدہ طالبہ کو بھرتی کروایا اور شادی کی۔ ساتھ ہی اپنے دیگر قریبی رشتے داروں کو کہیں نہ جگہ دلوائی۔

پنجاب یونیورسٹی میں تو بے چارے کو ڈین فیکلٹی آف آرٹس تک کی جگہ نصیب نہ ہوئی لیکن اپنے آبائی علاقے میں سیاسی زور لگا کر وائس چانسلر کی کرسی نصیب ہوئی مگر دیکھئے خدا کی قدرت کہ اب اس غریب پے نیب کے ریفرنس بنے چلے جا رہے ہیں اقربا پروری کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

عزیز قارئین!
آپ کو کیا لگا میں اس پروفیسر کی بات کر رہی ہوں؟ جو آج کل خبروں میں ان ہیں؟ ارے ہماری اتنی مجال کہاں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).