مجھے کیوں نکالا: حسین نقی؟


اگر کوئی مونچھ مونڈا توہینِ مذہب کا مُلزم مل جائے تو ہم قانونی اور عدالتی چکروں میں نہیں پڑنا چاہتے، فٹا فٹ اُس مردُود کو اپنے ہاتھ سے پتھر مار کر جہنم واصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہے جنت میں گھر بُک کروانے کا شارٹ کٹ۔

شارٹ کٹ ہماری سرشت میں سرایت کر چکا ہے۔ ہمیں ہر بات میں شارٹ کٹ چاہیے۔ کامیاب ہونے کے لئے ہمیں شارٹ کٹ چاہیے۔ امیر بننے کے لئے ہمیں شارٹ کٹ چاہیے۔ اپنے مسائل کے حل کے لئے بھی ہمیں شارٹ کٹ ہی چاہیے۔

مسائل کے حل کے لئے ہمیں ایک ہی شارٹ کٹ نظر آتا ہے۔ اور وہ ہے جہانگِیری عدل کرنے والا جج۔ آج سے کوئی دو دہائیاں قبل، جب میں نے وکالت میں نیا نیا قدم رکھا تو بار بار یہ سُننے کو مِلتا کہ اگر ہماری عدالتیں ٹھیک ہو جائیں تو ہمارے سارے مسئلے چُٹکی بجاتے میں حل ہو جائیں گے۔ کئی سال میں اِسی شش و پنج میں رہا کہ بات تو بالکل ٹھیک ہے۔ اگر ہماری عدالتیں ٹھیک ہو جائیں، ایمانداری سے فیصلے کرنے لگیں، قابلیت سے فیصلے کرنے لگیں اور وقت پر فیصلے کرنے لگیں تو واقعی سارا نظام خودبخود ٹھیک ہو جائے گا۔

کیوں کہ پھر معاشرے میں جو بھی کوئی غلط کام کرے گا یا صحیح کام نہیں کرے گا اُسے عدالت سے فوراً صحیح کام کرنے کا حکم ملے گا اور اسے صحیح کام کرنا پڑے گا۔ شش و پنج میں اس لئے تھا کہ یہ تو سادہ سی بات تھی، ایسا ہوتا کیوں نہیں؟ کافی عرصے بعد سمجھ میں آیا کہ عدالتوں کے جج چاند سے نہیں لائے جاتے، وہ اُنہی گھروں میں پلتے بڑھتے ہیں جن میں مَیں اور آپ۔ لہٰذا جج صاحبان بھی اُسی کِردار کے مالک ہوتے ہیں جس کا ہمارا معاشرہ متحمل ہوتا ہے۔ اگر ہم ایک کمینے کردار کا معاشرہ ہوں گے تو ہمارے جج صاحبان بھی ہمارے ہی عکاس ہوں گے۔

جب سے یہ بات پلّے پڑی مجھے سمجھ آنے لگی کہ مغربی تہذیبوں میں نظام پر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے۔ اِس کے پیچھے سادہ سا فلسفہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں نہ سب انسان اچھے ہوتے ہیں اور نہ ہی ایک جیسے۔ مگر انصاف کا تقاضہ ہوتا ہے کہ سب انسانوں سے ایک جیسا سلوک روا رکھا جائے۔ لہٰذا انصاف کا ترازو کسی ایک انسان یا ایک جماعت کے ہاتھ میں دینے کے بجائے ایک نظام کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے۔ جج صاحبان کی ذمہ داری پھر یہ ٹھہرتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کے ہر مقدمہ انصاف کے ترازو میں اُسی نظام کے تحت تُلے۔

مگر ہم نظام نہیں جہانگیری انصاف چاہتے ہیں۔ ہر خاص و عام کا مقدمہ پہلے سول عدالت میں جائے، پھر سیشن عدالت میں، پھر عدالتِ عالیہ میں اور پھر عدالت عظمٰی میں، اس جھنجٹ میں کون پڑے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ تو سووموٹو کیس کے طور پر سیدھا چیف جسٹس صاحب سنیں اور فٹا فٹ حل کر دیں۔ عدالت اعظمٰی کے باہر ایک زنجیر عدل لٹکی ہو، ہم جا کر اُسے کھینچیں اور ہماری سُنوائی ہو جائے۔ مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ اس معاشرے میں ہم اکیلے نہیں، ہمارے ساتھ بائیس کروڑ لوگ اور بھی ہیں۔

یہ نظام انصاف اور یہ عدالتیں صرف ہمارے لئے نہیں بنائی گئیں، تمام بائیس کروڑ لوگوں کے لئے بنائی گئی ہیں۔ اگر ہمارا انصاف کا حصول زنجیر کھینچنے پر مُنحصر ہو گیا تو زنجیرِ انصاف کے سامنے بائیس کروڑ لوگوں کی قطار لگ جائے گی۔ بائیس کروڑ لوگوں کے صِرف ایک بار یہ زنجیر کھینچتے کھینچتے ہی صدیاں گزر جائیں گی۔ ویسے بھی جہانگیری عدل بادشاہت کا طریقہ ہوتا ہے جہاں عادل بادشاہ ظلِ اِلٰہی ہوتا ہے، ریاست کا تنخواہ دار ملازم نہیں۔

انصاف کے نظام کے دو ستون ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ مقدمے کا فیصلہ پہلے سے لکھے گئے قانون کے تحت ہوتا ہے، جج صاحب کی مرضی پر نہیں۔ اور دوسرا یہ کہ ہر مقدمے میں ملزم کو اپنی بات کھل کر بیان کرنے کا حق ہوتا ہے اور یہ مقدمہ کھلی عدالت میں ہوتا ہے جہاں جو چاہے مقدمہ کی کارروائی دیکھنے آ سکتا ہے۔ یہ اِس لئے کیا جاتا ہے تا کہ انصاف صرف ہو ہی نہ، ہوتا نظر بھی آئے۔

اسّی سالہ حسین نقی، جن کی صحافتی دنیا میں بے پناہ عزّت ہے، اُنہیں کمرائے عدالت سے جھڑک کر باہر نکال دیا گیا۔ ان کو اتنا بھی موقع نہ دیا گیا کہ وہ پوچھ ہی پاتے کہ ان کو کیوں نکالا گیا؟ سنا ہے کہ ایک ریٹائرڈ جج صاحب ان سے ناراض ہو گئے تھے۔ کیوں ناراض تھے یہ بتانے کا بھی نقی صاحب کو موقع نہ دیا گیا۔

پہلے نواز شریف نے کہا مجھے کیوں نکالا؟ پھر مطیع اللہ جان نے کہا مجھے کیوں نکالا؟ پھر نصرت جاوید نے کہا مجھے کیوں نکالا؟ پھر طلعت حسین نے کہا مجھے کیوں نکالا؟ اب حسین نقی پوچھ رہے ہیں مجھے کیوں نکالا؟ میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں۔ ہے آپ کے پاس کوئی جواب؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).