جرمن سفیر کی ڈڈو کار اور ہمارا کردار


سادگی میں حسن ہے۔ ہمارا حسن گہنا سا گیا ہے۔ ہم سادگی بھول کر دکھاوے کی دوڑ میں بیچ دوراہے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ کنفیوژڈ۔ نہ سمجھ آتا ہے کہ بچے کو مہنگے سکول سے نکال لیں اور نہ ہی فیسوں کا بوجھ اٹھا پا رہے ہیں۔ گھر کے بجلی، گیس، پانی کے بل دیکھ کر دل سنبھال لیتے ہیں۔ مہنگے ریستوران، شاپنگ سینٹر کسی سٹیٹس سمبل کے طور منتخب کرتے ہیں اور پھر کریڈٹ کارڈ کے بل کو کوستے ہیں۔ یہ وہی دوراہا ہے جس کا ابتدا میں ذکر کیا تھا۔ نہ مڑ سکتے ہیں اور دو آنکھوں سے چاروں طرف اکٹھے دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ مگر ہیں کنفیوژڈ۔
ہمارے ہاں فوکسی کار کا ایک مخصوص نام مشہور ہے۔ “ڈڈو کار”۔ ایسی ہی ایک ڈڈو کار پاکستان میں تعینات جرمن سفیر “مارٹن کابلر” کے پاس بھی ہے۔ اس کار پر انہوں نے مختلف پھول بوٹے، کشیدہ کاری اور رنگ و روغن کرا رکھا ہے۔
یہ وہ ہی جرمن سفیر ہیں جو کبھی تو کسی مقامی حجام کے پاس بیٹھے جرمنی اور پاکستان کے عوام کے درمیان محبت کی راہیں ہموار کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی ریلوے ٹرین میں اسلام آباد سے لاہور کا سفر کرتے ہیں۔ لاہور کے کھانوں سے لیکر پشاور کے چرسی تکہ اور گلگت بلتستان کی خوبصورت وادیوں میں گھومنا پھرنا ان کی سفارتی سرگرمیوں کا حصہ ہے۔ تعلیمی اداروں، محفلوں، اور بازاروں میں ان کو لوگ پہچانتے ہیں۔ ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں بھی لکھا ہے۔ “کابلر ان پاک”۔

انہوں نے ایک روز اپنی گاڑی کو ایک بالٹی پانی سے دھو کر لکھا کہ “پاکستان کو پانی کی اشد ضرورت ہے۔ میں نے اپنی گاڑی کو صرف ایک بالٹی پانی سے دھویا ہے اور امید ہے سب لوگ پانی کے ضیاع سے پاکستان کو محفوظ رکھیں گے”
کچھ لوگوں نے اسے بھی غیر مسلموں کی کوئ سازش جان کر اپنانے سے گریز کیا ہوگا۔ حالانکہ یہ میری اور آپ کی نسلوں کے مستقبل کا معاملہ ہے۔

آج “ہز ایکسیلینسی مارٹن کابلر ” ایک ٹویٹ کر بیٹھے انہوں نے اپنی فوکسی کار کے ساتھ تصاویر بنائیں اور لکھا کہ “آج شاپنگ کا ارادہ تھا۔ شاید سرد موسم کے سبب میری گاڑی کی بیٹری نے گاڑی کو سٹارٹ نہیں ہونے دیا۔ گاڑی کو دھکا لگانا پڑا اور بیٹری کو چارج کرنا پڑا۔ ”
بس پھر کیا تھا۔ مسخروں، جگت بازوں، بھانڈوں، مفکروں، مدللوں کی ایک فوج نے ان کی ٹویٹ کے جذبات میں ڈوبے جوابات لکھنا شروع کئے۔


کسی نے لکھا کہ اس کو کچرہ کے ساتھ باہر پھینک دیں۔ کسی نے خامہ فرسائی فرمائ کہ “لینڈ کروزر لے جا ماما”۔ ایک دوست نہیں بلکہ بھانڈ نے لکھا “ویلے دی نماز کویلے دیاں ٹکراں”، ان کے ایک بھتیجے نے لکھا کہ “رنگ کرانے سے نئی گاڑی نہیں بن جاتی چاچا جی”۔ ایک صاحب جن کا نام واقعی جوکر تھا لکھتے ہیں کہ کوئی پاور بینک ہی خرید لیں۔ مردانہ دواؤں کے اشتہارات کے حصار میں رہنے والے کہاں باز رہتے لکھا کہ بوڑھوں کی طرح گاڑی بھی بوڑھی ہو گئی ہے۔ اسے کسی کشتے اور فولاد کی ضرورت ہے۔ چند ایک لوگوں نے ایسے کلمات لکھے کہ جو یہاں رقم کرنا ممکن نہیں۔ میرے پسندیدہ ایڈیٹر تو شاید ان الفاظ کی پکڑ سے استثنا دے دیں مگر اللہ کی پکڑ میں لازمی آنا پڑے گا۔ اور ہاں چند ایک کلمات اچھے بھی تھے جس میں اس گاڑی کی تعریف لکھی تھی۔ وہ اتنے ہی تھے جتنا مختصر الفاظ میں میں نے ان کا ذکر کیا ہے۔

اب آتے ہیں ایک سفیر اور اس کے سفارتی رویے کی طرف۔ فرانس، برطانیہ، امریکہ، سعودی عرب، جاپان، کینڈا کے سفراء کے ہمیں نام بھی معلوم نہیں۔ وہ یہاں موجود ہیں مگر پاکستان اور عوام سے تعلق ایک پروفیشنل اور محتاط فارنر والا۔ سیکورٹی، بدامنی اور خطرات کے جھرمٹ میں ہم نے اپنے ہی حکمرانوں کو بلٹ پروف گاڑیوں کے قافلوں کی اوٹ لیتے اسلام آباد کی سڑکوں پر بامرمجبوری گھومتے دیکھا ہے۔ ایسے میں ایک جرمن سفیر اگر دو ملکوں کی محبت، سفارتی تعلقات و مفادات کی بات کرتا ہے تو اس کا احترام لازم ہے۔ وہ پاکستان کا مصور ہے۔ وہ جرمن عوام کے سامنے ہمارے اجتماعی رویوں کا پیامبر ہے۔ اس کے الفاظ، تجزیہ اور سفارشات پر دونوں ممالک کے تعلقات استوار ہونے ہیں۔ اور ویسے بھی وہ نہ تو وہ ہمارا چاچا ہے اور نہ ہی ماما۔ وہ ایک سفیر ہے۔ جو قانونی لحاظ سے عزت اور پروٹوکول کا متقاضی ہے۔

اب آتے ہیں ان کی سفارتی حیثیت پر۔ جرمن سفیر اپنے سفارتی کیریئر میں بہت سینئر حیثیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے کانگو کے امن مشن میں بیس ہزار افراد پر مشتمل فوج کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ انہوں نے عراق اور مصر میں جرمن سفیر کے طور پر خدمات سرانجام دی ہیں۔ جرمنی کے فارن آفس میں ڈائریکٹر جنرل کلچر اینڈ کمیونیکیشن اور فارن منسٹر کے چیف آف کیبنٹ جیسے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ ایک سفیر ہمارے وزیراعظم سے براہ راست ملاقات کر سکتا ہے۔ اس کا گھر اور سفارتخانہ اس کے اپنے ملک کی طرح متصور ہوتا ہے۔ ان دونوں جگہوں پر اس کے اپنے ملک کا جھنڈا لہراتا ہے۔ سفیر ہر طرح کے مقامی ٹیکسوں اور سامان اور ذاتی چیکنگ سے مستثنیٰ ہوتا ہے۔ کوئی لاءانفورسمنٹ ایجنسی اس کو گرفتار نہیں کر سکتی۔ اس کے گھر میں نہیں گھس سکتی۔ وہ ایک نہیں بلکہ سو گاڑیاں بھی اپنے ملک سے درآمد کر سکتا ہے۔ ان پر کوئ ٹیکس اور ڈیوٹی نہیں ہوتی۔
ایسے میں اگر کوئی سادگی کے ساتھ اپنی ڈڈو کار کے ساتھ پاکستان کی سڑکوں پر سادگی سے گھومتا ہے تو اس کی قدر کریں۔ اسے عزت اور احترام سے نوازیں۔ اس کو اعتماد اور مان دیں۔ اس سے سیکھیں کہ کسی پرائی قوم سے محبت کرنے کے لیے کیا خصلتیں اور عادتیں چاہیں؟ وہ ہمارا چاچا ماما نہیں ہے۔ اس کو یہ عزت عالمی قانون فراہم کرتا ہے۔ اس کی عزت کرنا پاکستان کا کلچر، روایات اور معاشرہ سکھاتا ہے۔ ہم تو ہمیشہ سے مہمان نواز رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بیرون ممالک سے لوگ کراچی اور لاہور پشاور دیکھنے آتے تھے۔ کیا ہوا اگر دہشت گردی نے ہم سے ہمارا سکون چھین لیا۔ دوسروں کی عزت و توقیر تو ہماری اعلیٰ روایات ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).