ہمارے معاشرے کا دردناک پہلو—-خوشامد


انسان کی بدنصیبی کی انتہا غلامی ہے. اور جہاں غلامی کی بہت ساری شکلیں ہیں وہاں غلامی کی بدترین شکل جسمانی نہیں پر ذہنی غلامی ہے. کوئی بھی وجود جسے قدرت نے کُھلی فضاؤں میں سانس لینے کا پیدائشی حق دیا ہے وہ فطرتاً کسی کے تابع رہنا پسند نہیں کرتا. ذہنی غلامی کسی بھی قوم کے لیے اتنی نقصان دہ ہوتی ہے کہ وہ انہیں کھوکھلے پن میں مبتلا کردیتی ہے نتیجتاً وہ اپنا ذہن رکھتے ہوۓ بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو کسی اور کی تعریف میں صَرف کردیتے ہیں. جب ذہنی غلامی اپنے نقطہِ عروج پر پہنچتی ہے تو وہاں سے خوشامد جنم لیتی ہے جس کے نتیجے میں انسان اچھے یا بُرے میں تمیز کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے.
انسان کے لیے خوشامد کو تسلیم کرنا اس کی شخصیت میں کمزوری کا باعث بنتا ہے اور اس کے نتیجے میں جس کی خوشامد کی جاتی ہے وہ فیصلے کی قوت کو کھو دیتا ہے. اور پھر کوئی بھی نقطہ نظر جو اسکی خواہشات کے بر عکس ہو تو وہ اسے تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کرتا ہے بلکہ مزاہمت بھی کرنا شروع کردیتا ہے. اسے ہر وہ بات صحیح لگتی ہے جو اسکے نظریہ کے مطابق ہو گویا وہ تنقید کو سننے کا حوصلہ کھو دیتا ہے.
لیکن تاریخ میں پلٹ کر دیکھا جائے تو ایسے حکمران گزرے ہیں جنہوں نے بے جا خوشامد کو ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا ہے. یونانی مورخ ارسٹابولس نے سکندرِ اعظم کو خوش کرنے کیلئے اپنی کتاب میں یہ لکھ دیا کہ جب پورس اور سکندر کے درمیان باہمی مقابلہ ہوا تو اس میں سکندر نے بہادری کا مظاہرہ کیا، جب اس نے اس پیراگراف کو سکندرِ اعظم اور اسکے درباریوں کے سامنے خوشامدانہ انداز میں پڑھا تو سکندر خوش ہونے کے بجائے سخت غضبناک ہوا اور اس کی کتاب کو دریا میں پھینک دیا اور ساتھ ساتھ مصنف کو بھی دھمکی دی کہ اُس کا بھی یہی حشر ہوگا اگر اس نے یہ حرکت دوبارہ دہرائی.اسی طرح فرانس کے ایک طاقتور اور با اثر بادشاہ لوئ چہاردہم نے اپنے دربار کے ایک شاعر راسن(racine) سے کہا تھا کہ “اگر تم میری تعریف کم کرتے، تو میں تمہاری تعریف زیادہ کرتا”.
ان واقعات سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ ماضی میں خوشامد کی وجہ سے حکمرانوں کے اقتدار ان سے چھن گۓ اور جن قوموں نے خوشامد کرنا اپنا شیوہ بنایا ان میں سے تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو گئیں نتیجتاً اُنہیں افسوس اور پشیمانی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیا.
بڑے دُکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں بچہ تخلیقی صلاحیتوں کی تعلیم و تربیت کے بجائے تقلید کی جانب گامزن ہوتا ہے اُسے بچپن سے ایک ہی روش پر چلنا سکھا دیا جاتا ہے اُسے وہ مواقع نہیں فراہم ہوتے کہ وہ معاشرے کی قید سے آزاد ہوکر کچھ تخلیق کرسکے اور وہی بچہ جب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتا ہے تو اس میں فیصلا کرنے کی قوت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ خوشامدیوں کے گھیرے میں آجاتا ہے.
ہمارے صاحبِ اقتدار لوگ اگر سکندر اور لوئی چہاردہم کے اسی کردار کو مدِنظر رکھتے ہوئے چلتے تو شاید ہمارے معاشرے کی یہ تصویر نہ ہوتی. ہمارے معاشرے میں خوشامد کرنے والوں کا مقام دیکھ کر مجھے فرانس کے بادشاہ نپولین بوناپارٹ کے جملے یاد آتے ہیں، اس نے اپنے درباریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “میرے درباری میری اُن تقریروں کی تعریف کرتے ہیں جو میں نے کبھی کی ہی نہیں” کاش ھمارے معاشرے کا صاحب ثروت طبقہ اپنے درباریوں کے ان الفاظوں پر جو بات ان میں نہیں ہوتی پھر بھی ان سے منسوب کرتے ہیں نپولین کی طرح محسوس کرتے تو آج ہمارا یہ معاشرہ اتنا زوال پذیر نہ ہوتا.
آخر میں اپنی تحریر کو علامہ اقبال کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں کہ:
معلوم نہیں، ہے یہ خوشامد کہ حقیقت
کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر رات کا شہباز.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).