جادوئی گولی کے اثرات


صحافت کا شوق بھی عجیب شوق ہے، جیب میں کچھ نہ ہو پھر بھی خبر کی تلاش گھر نہیں بیٹھنے دیتی۔ صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میدان صحافت میں انٹری کے لئے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کسی سینیر صحافی کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے تب جاکر کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ پھر آغاز میں ذہن یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ادارے میں ایک بار داخل ہوجائیں پھر بڑے اداروں میں جانے میں آسانی ہوگی۔ صحافیوں کی افطار پارٹی ہو یا کوئی اور دعوت اس میں شرکت کو ہر نیا صحافی بڑی سعادت سمجھتا ہے، پھر نئے صحافیوں کو آغاز میں کسی پریس کانفرنس میں جانے کا موقع مل جائے تو ان کی کیفیت دیکھ کر ایسا گمان ہوتا تھا کہ شاید جنت میں داخلے کا پروانہ مل گیا ہے۔ پھر اگر کسی بڑی سیاسی شخصیت کے ساتھ سیلفی ہوجائے تو عید سی لگتی تھی۔

بہرحال صحافت کی تعلیم کے دوران جو کچھ ہوتا ہے یا جو کچھ پڑھا جاتا اس میں سے کم ہی یاد رہتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ فیلڈ کے حالات اور کام کی نوعیت کتابوں سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ دیگر تمام صحافیوں کی طرح میں بھی فخر سے کہتا ہوں کہ جو کچھ پڑھا اس میں سے کم ہی یاد ہے۔ ہاں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ کام کافی حد تک بڑوں سے سیکھ لیا ہے۔ لیکن صحافت کے میدان میں رہنے والا ہمیشہ طالب علم ہی رہتا ہے۔ کچھ دن قبل دوران تعلیم پڑھی گئی ایک تھیوری اچانک ذہن میں آگئی۔

اس تھیوری کا نام میجک بلٹ تھیوری ہے یعنی جادوئی گولی کا نظریہ۔ اس تھیوری کے مطابق میڈیا پر نشر یا شایع کیے جانے والا مواد جادوئی گولی کا اثر رکھتا ہے۔ عام زبان میں یہ کہہ لیجیے کہ دور حاضر میں جو کچھ ٹیلی ویژن چینلوں پر نشر کیا جاتا ہے وہ ایک جادوئی گولی کی طرح ہے جو دیکھتے ہی عوام کے ذہن میں داخل ہوجاتا ہے اور دیکھنے والے اس پر عمل کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ تھیوری بظاہر غلط نظر آتی ہے کیوں کہ ہم اس خوش فہمی میں مبتلہ ہیں کہ دور حاضر کا انسان انتہائی با شعور ہوگیا ہے۔ اسے کسی کے کہنے یا بتانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آج کا انسان ہر بات کی خود تحقیق کرتا ہے اور سوچنے کے بعد ہر معاملے میں اپنی فہم کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔

اگر سوشل میڈیا پر کچھ وقت گزارا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کا انسان بالکل بھی باشعور نہیں۔ آج کا انسان جادوئی گولی کے اثر میں مبتلا ہے۔ ٹی وی پر نشر یا اخبارات میں شایع ہونے والے مواد آج کے انسان پر بے حد اثر انداز ہوتا ہے۔ آج کا انسان بالخصوص نوجوان جو کچھ دیکھتا ہے ویسا بننے کی کوشش کرتا ہے۔ 2015 کے بعد ملک کی سیاسی صورت حال تبدیل ہوئی۔ اور 2018 کے انتخابات کے بعد پاکستان کی سیاست میں شدت کا عنصر واضح نظر آنے لگا۔ پاکستان کے سیاست دان ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلی کا اجلاس ہو یا کوئی جلسہ یا پریس کانفرنس سیاسی رہنما ایک دوسرے پر تاک تاک کر لفظی گولا باری کرتے ہیں۔ اس لفظی گولا باری میں اکثر نازیبہ الفاظ کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

سیاست دان ملک کے قابل عزت ایوانوں میں ایک دوسرے کو بھانڈ کہتے نظر آتے ہیں۔ کوئی سیاست دان کسی کو مناظرے کا چیلنج کرتا ہے تو سامنے والا سیاست دان وہ چیلنج کرنے والے ن کو کسی رقاصہ سے مناظرے کا مشورہ دے دیتا ہے۔ کہیں کسی رہنما کو قائد یوٹرن کا لقب دیا جاتا ہے تو کہیں چور چور کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ جیلوں میں جانا قابل فخر بات تصور کی جاتی ہے۔ کوئی اپنے خوابوں کی مدد سے کسی کو مستقبل سے ڈراتا ہے تو کوئی اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق دوسروں کو جیل میں دیکھتا ہے۔

کوئی ہٹلر بننا چاہتا ہے تو کوئی کسی کو ہٹلر سے تشبیہ دیتا ہے۔ کوئی سیاست دان کسی کو میٹر ریڈر کہتا ہے توی کسی بے حیا ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ کوئی طالبان تو کوئی سیاسی میدان میں کسی کا ایجنٹ تصور کیا جاتا ہے۔ جس تعداد میں سیاست دان ایک دوسرے پر ذہنی مریض ہونے کا الزام لگاتے ہیں اگر ان کا الزام سچ ہوگیا تو ملک میں ذہنی امراض کے ڈاکٹر کم پڑ جائیں۔ اگر بحیثیت مسلمان اپنے ماضی پر نظر ڈالی جائے تو یقینی طور پر ذہن میں سوال اٹھے گا کہ کیا یہی وہ سیاست تھی جو اسلامی دور حکومت میں ہوئی؟ کیا تب بھی خلفا، وزرا اور گورنر ایک دوسرے پر اسی قسم کے الزامات لگاتے تھے؟ اگر قیام پاکستان کے بعد کی سیاست کا مطالعہ کیا جائے تو کیا قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح، مولانا مودودی، نوازبزادہ نصراللہ، مفتی محمود یا مولانا شاہ محمود نورانی کی سیاست تھی؟

سیاسی کارکنان اور سیاسی سپورٹرز بھی سوشل میڈیا پر اسی ریت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ چھوٹے سے نظریاتی یا سیاسی اختلاف کے باعث ایک دوسرے کے خلاف ایسی غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے جسے کو ئی معزز شخص پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتا ہے۔ تمام جماعتوں کے رہنما ؤں کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ایوان قانون سازی اور مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لئے ہیں ایک دوسروں کے کرداروں پر حملے کے لئے بالکل نہیں۔ سیاسی قائدین کے لاکھوں پیروکار ہوتے ہیں۔

سیاست دانوں کو اس بات کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ان کے اس رویہ کی وجہ سے اگر کوئی پیروکار اخلاقی پستی میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے ذمے دار وہ بھی ہوں گے۔ معزز عدلیہ نے جس طرح غیر ملکی مواد کے نشر ہونے پر اس لئے پابندی عائد کی کہ وہ ہماری روایت کے منافی ہوتا ہے بالکل اسی طرح عدلیہ کو اخبارات اور چینلز کو اس بات کا بھی پابند کرنا ہوگا کے کوئی ایسا مواد یا بیان نشر یا شایع نہ کیا جائے جس میں غیر شائستہ زبان استعمال ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).