اوئے چھوٹے۔۔۔۔۔دو کپ چائے لے آؤ جلدی سے !


آج دفتر سے واپسی پر اپنے دوست محمد توقیر ناصر کے ساتھ چائے کے ڈھابے پر بیٹھ کر چائے پی رہے تھے، روز مرہ زندگی کے بارے میں باتیں چل رہی تھیں کہ اچانک سے ایک گاڑی ہمارے پاس رُکی۔ گاڑی سے اپنے دوست کے ساتھ ایک امیر زادہ اترتا ہے اور ہمارے ساتھ ولی نشتوں پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ امیر زادہ اپنی عینک اتار کر ٹیبل پر رکھتا ہے اور اپنے پاؤں سیدھے کر کے ساتھ والی نشست پر رکھ لیتا ہے اور اپنی انگلیوں سے گاڑی کی چابی کو گھماتے ہوئے چائے بنانے والے شخص کی طرف دیکھتے ہوئے اونچی آواز میں آواز لگاتا ہے ”اوئے چھوٹے۔ دو کپ چائے لے کر آؤ جلدی سے“۔

اسکی آواز میں اتنا غرور کہ نہ صرف میں نے بلکہ اس جگہ پر موجود سب لوگوں نے ایک دفعہ مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ جس چھوٹے کو اس نے انتہائی بدتمیزانہ انداز میں آواز لگائی وہ قریبا 8 سے 10 سال کا ایک لڑکا تھا جو اس چائے والے ڈھابے پر کام کرتا تھا۔

مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس کے اس انداز سے بلانے پر مجھے فرق کیوں پڑا؟ میرے اندر اتنا غصہ کیوں بھر آیا اس کے خلاف؟ ایک دفعہ تو دل کیا کہ اٹھ کر اس سے پوچھوں کہ اس نے کیوں اس انداز سے آواز لگائی، لیکن میرے چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر میرا دوست سمجھ چکا تھا کہ میں کس قدر ڈسٹرب ہو چکا ہوں، میری طرف دیکھ کر ہنسا اور بولا ”چائے پیو مسٹر علی چائے“ اور چھوڑو ان کو یہ سب چلتا رہتا ہے۔ اور تمہیں ایک بات اور بتاتا ہوں کہ آج ”انٹر نیشنل چلڈرن ڈے“ بھی منایا جا رہا ہے۔

یہ باتیں ابھی چل ہی رہی تھیں کہ وہ چھوٹا دو چائے کے کپ ہاتھ میں تھمائے آگیا اور اس نے چائے ان کے سامنے رکھ دی۔ میری نظر جب اس چھوٹے پر پڑی تو میں پہلے سے زیادہ غمگین ہوگیا، دیکھتا ہوں کہ لباس جو اس نے پہنا ہے وہ بہت ہی گندہ تھا، اس کے کندھے پر ایک کپڑے کا چھوٹا سا ٹکڑا رکھا ہوا تھا جس کے ساتھ وہ اپنے گاہکوں کے بیٹھنے سے پہلے نشست کو صاف کرکے وہ گند اس کپڑے میں لپیٹے واپس اپنے کندھے پر رکھ لیتا ہے لیکن آنے والے معزز مہمانوں کو صاف جگہ مہیا کرتا ہے۔ یہ تربیت وہ کہاں سے لے کر آتا ہے؟

یہ تربیت اسے حالات، غریبی اور مفلسی سکھاتی ہے۔ یہ چھوٹا دراصل اپنے گھر کا سب سے بڑا ہوتا ہے۔ وہ بڑا ہوتا ہے جس نے شام کو اپنے گھر جا کر جو کچھ سارا دن کمایا اپنی ماں یا باپ کے ہاتھ میں رکھ کر ان کو یہ امید دلانی ہوتی ہے کہ کل ان کے گھر بھی کھانا پکے گا۔

کسی چائے والے کا ڈھابہ ہو، کوئی بس اسٹیشن ہو، کوئی کینٹین ہو خواہ وہ سکول کی کینٹین ہو، کالج کی ہو، یونیورسٹی کی ہو، کسی پبلک پلیس کی، کوئی ورکشاپ ہو الغرض ضروریات زندگی کے کوئی ایسی جگہیں جہاں محنت اور مزدوری کرکے اپنا پیٹ پالا جاتا ہے ہو وہاں ان جیسے چھوٹے پائے جاتے ہیں جو سارا دن امیر زادوں کی جھڑکیں بھی کھاتے ہیں، اپنے استادوں کی مار بھی کھاتے ہیں، ان کی گالیاں بھی برداشت کرتے ہیں لیکن اپنے منہ سے ایک لفظ سے نہیں کہتے جواب میں کیوں کہ انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ اگر بولے تو گھر کا چولہا بند ہوجائے گا۔

پاکستان میں آج بھی 22.6 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں، کیوں سکولوں سے باہر ہیں کیونکہ اگر یہ بچے سکولوں سے باہر نہیں رہیں گے تو ان کے گھر کا چولہا کون جلائے گا۔ ؟ ہر سال 20 نومبر کو ہم چلڈرن ڈے مناتے ہیں، سیاست دان، بیرونی فنڈنگز پر چلنے والی این جی او ز کا پیار اور شفقت ان بچوں پر نچھاور ہوتا ہے، طرح طرح کا فوٹو سیشن کرکے دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہم اپنے متوسط طبقے سے بہت پیار کرتے ہیں اور انہیں ہر طرح سے سپورٹ کرتے ہیں، لیکن یہی سیاست دان اور این جی اوز والے سارا سال ان بچوں کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے کہ وہ کس حال میں ہیں۔

اس کام کے لیے نہ تو کوئی حکومتی ادارہ اور نہ ہی کوئی این جی او اپنا موثر کردار ادا کر پائی ہے کہ ان بچوں کے جو بنیادی حقوق ہیں ان کو صلب نہ کیا جائے۔ سکول جانے کی بجائے کام کرنے والے بچے نفسیاتی طور پر بیمار ہوجاتے ہیں، ان کے سامنے امیر لائف اسٹائل جب آتا ہے تو ان کے ذہن میں وہ امیری کے خواب جنم لیتے ہیں جو بعض بچوں کو الٹے راستوں پر چلنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

بچوں کے بنیادی حقوق میں ان کی تعلیم، ان کی خوراک، ان کی صحت کو مکمل طور پر جانچا اور پرکھا جائے اور ان ضروریات کو ان تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے پاکستانی حکومت آج تک اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے، ہر آنے والا سیاست دان دعوؤں کے انبار لگا دیتا ہے لیکن ایک غریب اور بے بس، مفلس بچے کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے نہیں بچاتا، کوئی ایسی پالیسی، کوئی ایسا قانون مرتب نہیں دیتا کہ غریب کے گھر کا چولہا بھی جل جائے اور غریب کا بچہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم بھی نہ رہے۔

پھٹے پرانے کپڑے، گندہ چہرہ، کالے ہاتھ، ٹوٹا جوتا، کندھے پر گندہ کپڑا، ہاتھ میں ٹولز یا چائے کا کپ، عمر آٹھ سے دس سال، آنکھوں میں ہزاروں خواب، سکول جاتے بچوں کو دیکھ کر آنسو بہانے والا، وہ آنسو نظاہر تو نظر نہیں آتے لیکن وہ آنسو ہوتے ہیں جو اندر ہی اندر میں کھا جاتے ہیں، دل میں دفتر میں بیٹھنے کی کسک، اونچی اوڑان بھرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے ایک کرسی پر بیٹھا کہیں سوچوں میں گم، اچانک سے پیچھے سے آواز آتی ہے کہ ”چھوٹے۔

دو کپ چائے“، اچانک سے وہ خواب ٹوٹتے ہیں تو اس چھوٹے کو لگتا ہے کہ اس کی تقدیر میں یہی لکھا ہے، اس کے نصیب میں یہی لکھا ہے کہ اس نے در در کی ٹھوکریں کھانی ہیں، اسے لگتا ہے کہ ساری زندگی اس نے اسی زلت و رسوائی میں گزارنی ہے، ایک وقت میں وہ اس زلت و رسوائی بھری زندگی سے بھاگنے کا سوچتا ہے، کندھے سے گندہ کپڑا اتار پھینک کر الٹے پاؤں چلنے لگتا ہے تو اس کے ذہن میں اچانک سے خیال آتا ہے کہ میں تو چھوٹا ہوں لیکن گھر میں سب سے بڑا ہوں اگر میں چلا گیا تو میرے گھر میں کھانا کیسے پکے گا؟

وہ اس امید کے ساتھ واپس کام کی طرف لوٹتا ہے کہ کوئی تو مسیحا آئے گا جو اس کی زندگی بدل دے گا، کوئی تو ایسا ہوگا جو اس کی تقدیر بدلے گا۔ کوئی تو ہوگا جو اسے کہے گا کہ آج سے تم سکول جاؤ گے اور تمہارے حصے کے پیسے تمہارے گھر پہنچ جائیں گے اور تمہارے گھر میں کھانا پک جائے گا۔ موجودہ حکومت سے تو امید نہیں کی جا سکتی، لیکن وہ آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر یہ ضرور کہتا ہے کہ کاش ”میں خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ کے دور میں پیدا ہوا ہوتا، تو انہیں بیچ چوراہے پر کھڑا کرکے کہتا کہ آپؓ ریاست کے مالک ہیں، مجھے پڑھنا ہے، تعلیم حاصل کرنی ہے لہذا میرے گھر کے اناج کا بندو بست کیا جائے“۔ اور میں خوشی خوشی تعلیم حاصل کرکے اپنا مستقبل خود سنوار سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).