پیمائش کا مسئلہ اور اکیسویں صدی کا نیا کلوگرام


 سادہ طبعی قوانین کی عمومی خاکہ بندی اور ان قوانین کی مدد سے پیچیدہ سے پیچیدہ تر قوانین کی جانب بڑھنے والا یہ مفروضہ تمام طبعی قوانین کو غیرمتغیر مانتا ہے۔ یہ قوانین تجرباتی بھی ہو سکتے ہیں اور نظری بھی۔ دونوں صورتوں میں ان کے مقاصد معلوم واقعاتی مظاہر کی وضاحت اور نامعلوم واقعات کی پیشین گوئی ہے۔ کسی بھی سماج میں سائنس سے مستفید ہوتے افراد یہ جاننے سے قاصر رہتے ہیں کہ مظہری واقعات کی سائنسی وضاحت دراصل ان کی تہہ میں موجود طبعی قوانین ہی کی وضاحت ہوتی ہے۔

تمام طبعی قوانین انسانی علم میں نہیں لیکن اس مفروضے کا اطلاق نامعلوم قوانین پر بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ یعنی ہم کسی ایسے طبعی قانون کی دریافت نہیں کر سکتے جو تحدیدات و شرائط کے کسی مجموعے کو اپنے اوپر لاگو کرنے کے بعد بھی تغیر کا احتمال رکھتا ہو۔ ایسا ہونے کی صورت میں قانون سائنسی روایت سے فوری طور پر تلف تونہیں ہو جاتا لیکن اس کی خاکہ بندی کا عمل مکمل تصور نہیں کیا جاتا اور اسی لیے اس کی افادیت پر ایک سوالیہ نشان رہتا ہے۔

منطقی اعتبار سے یہ دعویٰ کسی مزید استدلال کا محتاج نہیں کہ غیر متغیر طبعی قوانین اپنی خاکہ بندیوں میں اساسی نوعیت کے کچھ ایسے غیرمتغیر طبعی مظاہر رکھتے ہوں گے جو انسانیت کو با الآخر معلوم ہو جائیں گے۔ مقیاسی تناظر میں پہلا ایسا دعویٰ ساٹھ کی دہائی میں کیا گیا جب یہ تسلیم کر لیا گیا کہ ایک سیسیم ایٹم سے خارج اور جذب ہونے والی خردموج (مائیکرویو) شعاؤں کی غیرمتغیر فریکوئنسی وقت کی تمام پیمائشوں میں استعمال ہو گی۔

زمین کے گھومنے کی بجائے اس غیرمتغیر اساسی مظہر کی بنیاد پر ایٹمی گھڑیاں بنائی جائیں گی۔ دوسرا دعوی اسّی کے اوائل میں ہوا جب یہ تسلیم کر لیا گیا کہ کسی جوفِ خالی (ویکیوم) میں نوری رفتار ایک ایسا اساسی غیرمتغیرہ ہے جسے لمبائی کی پیمائش کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یوں ایک میٹر کو ماپنے کے لیے پلاٹینم اریڈیم کے معیاری پیمانے کی بجائے نوری پیمانے کا معیار رائج ہو گیا۔ لیکن کمیت کی حد تک ایسا کوئی اساسی غیرمتغیرہ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

 اس کے برعکس طبعی قوانین کی ریاضیاتی خاکہ بندیوں میں شامل اساسی غیر متغیرات کو مقیاسی نظام کی اکائیوں کے ذریعے قیاس کیا جاتا رہا۔ اس موقع پر یہ سوال دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ آخر یہ غیر متغیرات ہیں کیا؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ یہ وہ مقداریں ہیں جو متغیرات کی باہمی نسبتوں کو ممکن بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر کائنات کی تمام معیاری گولائیوں کا محیط ایک سادہ سے طبعی قانون سے ماپا جا سکتا ہے جس کی رُو سے کسی بھی دائرے کا محیط اس کے قطر اور ایک اساسی غیرمتغیر مقدار ”پائی“ کا مرکب ہے۔

 لیکن یہ غیرمتغیرہ خود کیسے ماپا جائے؟ ا س کا تعین کس حد تک ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ گولائی کے تمام مظاہر میں شامل ہے لہٰذا ایک مخصوص طبعی صورت رکھتا ہے لیکن تعین سے اس کی پیمائش پھر بھی تاحال ناممکن ہے۔ لیکن بہرحال ایک ایسا متعین قیاس ممکن ہے جو تین ہزار سال سے سائنسی روایت کو آگے بڑھا رہا ہے۔ بنیادی مقیاسی اکائیوں کے تناظر میں بھی غیرمتغیرات کو مقیاسی نظام کی رائج تعریفات کی بنیاد پر ماپا جاتا رہا۔

اس سلسلے میں حالیہ مثال میکس پلانک کا غیرمتغیرہ ہے جو کسی بھی نوری ذرے کی توانائی اوراس کی فریکوئنسی میں نسبتی تعلق کی خاکہ بندی کرتا ہے۔ اس اساسی غیرمتغیرے کو تجربہ گاہ میں ماپنے کے لیے آج تک تو کلوگرام کا وہ معیاری میزان استعمال کیا جاتا رہا جو فرانس میں موجود ہے کیوں کہ آئن سٹائن کی کمیت اور توانائی کے تعلق پر مبنی مساوات کا پلینک کی کوانٹم مساوات سے ریاضیاتی تعلق ثابت ہو چکا تھا۔ لیکن بہرحال یہاں یہ سمجھوتہ کارفرما رہا کہ بالتعریف ایک ایسے غیرمتغیرے کے پیمائش کو مقیاسی غلطی سے سراسر پاک قرار نہیں دیا جا سکتا جب اس کی پیمائش میں کسی ایسی شے کا عمل دخل ہو جو فطرتاً طبعی نہ ہو بلکہ انسانی ایجاد کی مصنوعیت کے باعث ہلکی پھلکی کمزوری یا خرابی کا امکان رکھتی ہو۔

اس تناظر میں 1999ء میں یہ تجویز سامنے آئی کہ اگر ایک معلوم کمیت کے لیے پلانک کے غیرمتغیرے کو ”کبل بیلنس“ نامی ایک برقی میزان سے ماپ لیا جائے تو پھر اس متعین مقدار کو خود کلوگرام کی معیاری تعریف کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ با الفاظ دیگر معیاری کلوگرام پر مبنی ایک میزانی نظام سے پلانک کا غیرمتغیرہ قیاس کرنے کی بجائے معکوس راستہ اپنایا جائے۔ یوں دنیا بھر میں برقی اوزان پر مشتمل کئی کبل بیلنس مشینوں نے پلانک کے غیرمتغیرے کی وہ حتمی پیمائش کی جو اب کلوگرام کی پیمائش میں استعمال ہو گی۔ یوں اگلے سال مئی تک کلوگرام، مول، کیلون، ایمپئیر اور کینڈیلا کی وہ نئی معیاری تعریفات سامنے آئیں گی جو تمام متعین اور حتمی غیرمتغیروں پر مشتمل ہوں گی۔

یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا یہ نئے مقیاسی معیارات ”آنے والے تمام وقتوں اور تمام انسانوں“ کے لیے کافی ہوں گے یا نہیں لیکن جدید سائنسی روایت اب مستقبل کے بارے میں اس قسم کے کسی حتمی دعوے سے گریز پر ہی ایمان لا چکی ہے۔ یہ یقیناً انسانی فکر کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے لیکن مقیاسی معیارات کے مسئلے پر ہرگز حرفِ آخر نہیں۔ مقیاسی علمیات میں تعین اور درستگی ہی واحد مسائل نہیں بلکہ یہ تو مقداری خاکہ بندی کا ایک ایسا جدید آدرش ہے جس کی طرف انسانیت کا سفر مسلسل جاری ہے۔

 آج سائنسی روایت ہر اس تصور کو اپنی چھتری تلے جمع کر چکی ہے جو زمرہ بندی، تقابل و موازنہ اور مقداری خاکہ بندی کے تحت لایا جا سکتا ہو۔ یہ تینوں دائرے یوں تو علیحدہ ہیں لیکن ان کے درمیان ایک سلسلہ وار نسبتی تعلق بھی موجود ہے۔ سائنسی روایت پہلے پڑاؤ پر زمرہ بندی، دوسرے پر موازنہ اور تیسرے پر مقداری خاکہ بندی کی کوشش کرتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ علمِ حیوانات و نباتات اور لسانیات جیسے علوم کس طرح پچھلی نصف صدی میں پہلے دو دائروں سے گزر کر اب حسابی حیاتیات اور حسابی لسانیات جیسے علوم کو دعوت دے رہے ہیں۔ یہ سفر پرشکوہ اور سحر انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ کل انسانی حیات پر یوں حاوی ہوتا چلا جا رہا ہے کہ مقداری تناظر اب لازماً جدید انسانی نفسیات کا ایک نامیاتی جزو بن چکا ہے۔

اس مقداری تناظر کے خدوخال کیا ہیں؟ کیا یہ خاکہ بندی محض سماجی لسانیات سے متعلق ہے؟ کیا یہ مقداری تناظر قدیم کیفی یا نوعیتی تجزیے کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لے گا یا دونوں ایک دوسرے کو سہارا دینے کے لیے لازمی ہیں؟ کشمکش کے میدان کیا ہیں؟ سرحدیں کہاں واقع ہیں اور کتنی مبہم ہیں؟ توازن اور سمجھوتے کے امکانات کیا ہیں؟ ہم ان سوالات کو اگلے مضمون میں اٹھانے کی کوشش کریں گے۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi