اُردو میڈیم بچے زندگی کہ دوڑ میں پیچھے آخر کیوں؟


کہتے ہیں اگر آپ کسی قوم کے وجود کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس قوم سے تعلیم چھین کر اسے نشہ کا عادی بنا دیں تووہ قوم اپنا وجود خود بخود کھودے گی یعنی تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو شعور کے اعلیٰ درجات پر فائز کراسکتا ہیں۔ جو انسان کو اپنے خالق کی پہچان کراتاہے، اسے اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہے۔ اگر تعلیم کی اہمیت نا ہوتی تو اللہ پاک قرآن کی پہلی آیت علم سے شروع نہ کرتے، یعنی علم کے بغیر آج کے اس جدید دور میں زندہ رہنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔ جب انگریز برصغیر میں آئے، تو اپنے کلچر کے ساتھ اپنی زبان بھی لے کر آئے۔ مسلمانوں نے انگلش کا بائیکاٹ کیا تو مسلمان بڑے سرکاری عہدوں سے محروم ہو گئے۔ اگر سر سید احمد خان کوشش نہ کرتے، تو آج بھی ہم پتھر کے زمانے میں جی رہے ہوتے۔

آج ہم جانتے ہیں کہ پوری دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے، سوشل میڈیا کا دورہے۔ اور پوری دنیا سے رابطے کے لیے ایک زبان استعمال ہوتی ہے، وہ ہے انگلش، اور ہمارے ملک پاکستان کی دفتری زبان بھی ہے۔ مانا کے ہماری قومی زبان اردو ہے مگر اس کا استعمال بہت کم ہی ہوتا ہے۔ پاکستان میں جتنے بھی بڑے امتحان ہوتے ہیں، جسے سی ایس ایس، پی سی ایس وغیرہ یا کوئی چھوٹی موٹی نوکری ہو سب کے ٹیسٹ انٹرویو انگلش میں ہوتے ہیں۔

انگلش کی ایسی مقبولیت کو دیکھ کر بہت سے لوگوں نے پرائیویٹ اسکولز کھول دیے، جنہیں انگلش میڈیم اسکولز کہا جاتا ہے۔ جہاں پہلی کلاس سے لے کر میٹرک تک انگلش میں تعلیم دی جاتی ہے۔ یعنی بچے کو ذہنی طور پر تیار کیا جاتا ہے کہ آنے والے وقت میں اگر نوکری چاہیے ہو، تواسے انگلش میں پڑھنا لکھنا چاہیے۔

لیکن تصویر کا ایک رخ اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کے % 90 لوگ غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ان % 90 لوگوں کے بچے سرکاری اسکولوں میں میٹرک تک اردو میڈیم پڑھتے ہیں، اور سرکاری اسکولوں میں کس طرح کی پڑھائی ہوتی ہے، ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔

ایک بچہ جو پرائیویٹ اسکول میں پڑھتا ہے وہ چھٹی کلاس تک آتے آتے انگلش میں بات کرلیتا ہے۔ اور دوسری طرف سرکاری اسکول کا بچہ میٹرک تک آتے آتے با مشکل اے بی سی ڈی سے ہی واقف ہوپاتا ہے۔ یقینآ اس کے مقابلے میں انگلش میڈیم بچہ آگے ہوجاتا ہے، نمبر بھی اس کے زیادہ ہوتے ہیں، اردو میڈیم بہ مشکل پاس ہوپاتا ہے۔ اور میٹرک تک سرکاری اسکولوں میں سائنس کہ مضامین اردو میں ہوتے ہیں اور کالج میں پونچھتے ہی وہی کورس انگلش میں ہوجاتا ہے اب جس بجے نے پہلی کلاس سے لے کر میٹرک تک اردو میں سائنس کی کتابیں پڑھیں ہیں اب اس کو یک دم انگلش میں سائنس کی کتابیں کہاں سمجھ آئیں گی۔ جب کہ انگلش میڈیم بچہ پہلی کلاس سے ہی سائنس کی کتابیں انگلش میں پڑھ رہا ہوتا ہیں اس کے لئے تو یہ سب مشکل نہیں ہوتا۔ تو ایسے میں اردو میڈیم مایوس ہوجاتا ہے اور پیچھے رہ جاتا ہے۔

یوں اس ایک انگلش کی وجہ سے بہت سے اردو میڈیم ذہین بچے پیچھے رہ جاتے ہیں، اور مایوسی و احساس کم تری کا شکار ہوکر غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں کچھ لوگ پڑھائی تک چھوڑ دیتے ہیں۔ اخر میں اتنا کہنا ہے حکومت کو اگر اردو میڈیم ہی پڑھانا ہے میٹرک تک تو پھر آگئے بھی تمام کورس اردو میں ہی ہونے چائیں اور تمام ملازمتوں کے ٹیسٹ انٹرویو بھی۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرسکتی تو پھر اردو میڈیم ختم کرکے پورے پاکستان میں انگلش میڈیم تعلیم دینا چاہیے اور ایک ہی نصاب تعلیم ہو سب کے لئے ہو۔ کیونکہ بنیاد تو میڑک ہے، جب بنیاد ہی مضبوط نہ ہو تو دیوار کیسے کھڑی ہوسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).