قوتِ عشق سے ہرپست کو بالا کردے دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے


صدیوں سے چلے آرہے تجربات و مشہدات کا نچوڑ بلا مبالغہ یہ باور کراتا ہے کہ گردو نواح کی ہر چیز کسی نہ کسی شے کی آرزو مند ہے۔ حیوانات، نباتات اور جمادات اپنی ضروریاتِ لازم کی احسن تکمیل کے واسطہ یا بلاواسطہ کسی دوسری شے پر منحصر ہیں۔ یہ دائرہ محض یہاں تک محدود نہیں بلکہ یہ باطنی حدود و قیود کا بھی محاصرہ کرتا ہے۔ انسانی دل کی طبع بھی کچھ اس نوع کی ہے۔ انسانی روح ایک ایسے مسافر کی مانند ہے جو گرم تپتے صحرا میں بہتے چشمے، ٹھنڈے پانی اور شجرِ سایہ دار کا متلاشی ہے۔ مسلمہ قاعدہ ہے کہ اگر اس دل کو خالی اور آوارہ چھوڑ دیا جائے اور کسی ناصح کی ہدایات کے سپرد نہ کیا جائے تو یہ نفسانی خواہشات کا مسکن بن جاتا ہے جو نتیجتاً انسان کی شخصی و اخلاقی تباہی کا پیشِ خیمہ بنتا ہے۔

چونکہ انسان کا مادی جسم مٹی سے بنا ہے لہذا جسمانی خواہشات و ضروریات اور معاملات کی دیکھ بھال اور تکمیل بھی زمینی وسائل اور موجودات سے ممکن ہے۔ جبکہ انسانی روحانی وجود ایسے عناصر کا مجموعہ ہے جو سراسر فاطرِ ہستی کی اس ”پھونک“ کا نتیجہ ہے جو تخلیقِ آدم کے وقت پھونکی گئی تھی۔ اسی لیے تسکینِ روحانیت کے لیے سامانِ تربیت اس الہامی علم کی بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے جو قدرت نے اپنی شریعت، کتاب اور سنت کی صورت میں مہیا کیا ہے۔

تمام الہامی علوم اور ادیان و مذاہب کا تقابلی و تنقیدی جائزہ لیا جائے تو معقول عقل اور منصفانہ نگاہ رکھنے والا ہر ناقد بجا طور پر کہہ سکتا ہے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو جسمانی تقاضوں سے لے کر روحانی معاملات تک مکمل راہنمائی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے اس طرہ امیتاز کو عملی شکل دینے کی خاطر حضرت محمد کو نبی بنا کر بھیجا۔ کسی بھی مذہبی تعصب سے بالا تر ہوکر انسان پر لازم ہے کہ اپنے روحانی معاملات کو درست سمت میں چلانے اور جسمانی خواہشات کی خوبصورت تکمیل کے لیے رسولؐ کی کامل پیروی کرے۔

شکوک و شبہات اور بغض عدات کے ناپاک عناصر دل میں پال کر اطاعت کا تصور کرنا سراسر عبث فعل ہے۔ لہذا اپنی دنیوی و اخروی کامیابی اور جسمانی و روحانی مقاصد کی تکمیل کے لیے رسولؐ کی اطاعت اور پیروی کے ساتھ ساتھ مکمل خلوص سے محبت اور الفت بھی لازم ہے۔ بلکہ الفت اور محبت کے الفاظ خاصے چھوٹے معلوم پڑتے ہیں۔ حضور کی اطاعت کی عمارت عشق کے تقاضوں کی بنیاد پر کھڑی ہونی چاہیے۔ جیسا کہ اقبال نے فرمایا:

قوتِ عشق سے ہرپست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے

حبِ نبوی کے نتیجے میں ہی انسان دنیا میں بھی ترقی کرسکتا ہے، آخرت میں بھی کامیابی حاصل کرسکتا ہے، جسمانی خواہشات کو بھی بطریقِ احسن انجام تک پہنچا سکتا ہے اور روحانیت کے مقصد کو بھی باآسانی پہنچ سکتا ہے۔

حبِ نبوی کا ایک محرک حضور اکرم کی ہمہ جہت شخصیت بھی ہے۔ فطری اصول ہے کہ انسان کا دل اور نگاہ ایک ایسے مرکز کو اپنا قبلہ ٹہراتے ہیں جہاں سے ضرورت کی ہرشے باآسانی دستیاب ہو۔ آپ کی ذات بھی ہمارے لیے مکمل نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضور اکرم نے اپنے حالات و خصائل سے تمام انسانیت کے لیے حیات کے وہ اعلیٰ معیار مقرر کیے ہیں جن پر کسی بھی زاویے سے تنقید کی گنجائش نہیں بچتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

ترجمہ:
در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ یے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے
(الاحزاب، 21 )

اس موقع پر یہ نتیجہ نکالنا بے جانہ ہوگا کہ نسلِ انسانی کے ارتقاء کے لیے جسمانیت و روحانیت کی افزائش اور بہترین نشونما ضروری ہے۔ اس مقصد کی خاطر ایک مثالی نمونہ ہونا ضروری ہے جو اپنے عملی کردار اور سیرت سے انسانیت کو پستیوں کی گہرائیوں سے نکال کر عروج کا اجالا بخشے۔ اسی معاملے میں انسان کی نصرت کی غرض سے خداتعالیٰ نے حضرت محمد کی صورت میں ایک مربی بھیجا جس نے باطل، جھوٹ اور کفر کے سیاہ بادلوں تلے ظلم کے سمندر میں ہچکولے کھانے والی انسانیت کی آوارہ کشتیوں کو حق، سچائی اور دینِ اسلام کی روشنی میں پار لگایا۔ اس شخص نے زمین پر بیٹھ کر آسمان اور زمین دونوں کی بادشاہی کے گر سکھلائے اور اسے اپنی عملی زندگی میں نافذ کرکے دکھایا۔ پس عقلی، ایمانی، امکانی اور عقدی سمیت تمام بنیادوں پر حضور اکرم کی اطاعت لازمی ہے جو محبت کے بنا عبث اور بیکار ہے۔

خوش خصال و خوش خیال و خوش خبر، خیرالبشرﷺ
خوش نژاد و خوش نہاد و خوش نظر، خیرالبشرﷺ
دل نواز و دل پذیر و دل نشین و دل کشا
چارہ ساز و چارہ کار و چارہ گر، خیرالبشرﷺ
سر بہ سر مہر و مروت، سر بہ سرصدق و صفا
سر بہ سر لطف و عنایت، سر بہ سر خیرالبشرﷺ
( حفیظ تائب)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).