پاکستان میں زبانوں کا المیہ


پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں مادری زبانوں کی ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے، اب وقت کی ضرورت ہے کہ ہم سب اس پر کھل کر بات کریں۔ اب پوری دنیا میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ بچوں کے ساتھ مادری زبان میں بات چیت کرنی چاہیے اور بنیادی درس و تدریس مادری زبان سے شروع کیا جائے۔ بہت ساری تنظیمیں عالمی سطح پر مادری زبان میں تعلیم پر مہم کی حمایت کر رہی ہیں۔ زبانیں سب خوبصورت ہیں اور ہمیں ان سب زبانوں سے محبت ہے بشمول وہ زبان جس کا بولنے والا فقط ایک بندہ ہی کیوں نہ ہو مجھے اس زبان سے بھی پیار ہے۔

زبان کا تعلق فقط بولنے اور رابطہ کاری سے نہیں ہے۔ یہ وسیع تر ثقافتی ورثہ ہے جو کہ سماج کی بنیادوں میں قلب کا کردار ادا کرتی آئی ہے۔ ایک فرد کا زبان سے تعلق اس کی ماں کے کوکھ سے لے کر ماں کی گود تک کا سفر ہے۔ یہ تعلق صرف جذباتی نہیں فطری بھی ہے۔ زبان قوموں کے صدیوں پرانی تہذیب، وتمدن اور تشخص کو زندہ رکھنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں زبان کی آڑ لے کر نفرت کا بیچ بویا گیا۔ نتیجے میں مشرقی پاکستان میں 11 مارچ 1948 میں جو واقعہ ڈھاکا یونیورسٹی میں ہوا وہ بنیاد بنا۔ ہم نے ملک کا ایک حصہ ہاتھوں سے جانے تو دیا پر ضد نہ چھوڑی اور نہ ہی سبق سیکھا۔ 1843 میں برطانوی حکومت نے سندھ پر قبضہ کر لیا تھا اور 1845 میں بمبئی تعلیمی بورڈ نے پالیسی بنائی کہ سندھی سندھ کی سرکاری زبان ہوگی۔ اور یہ لازم قرار دیا گیا کہ 18 ماہ کا سندھی زبان کا کورس مکمل کرکے سندھی زبان میں امتحان پاس کرنا لازم ہے۔

1851میں کمشنر نے یہ آرڈر پاس کیا کہ باہر سے آنے والے ملازمین لازمن سندھی کا امتحان پاس کریں گے۔ ذرا سوچیں کہ وہ تو سامراج تھے، اور وسائل پر قبض رہے۔ لیکن انہوں نے پھر بھی ہمارے زبان کی فروغ اور ترقی کے لئے کے لے کام کیا۔ اور جب تک انگریز تھے اُس وقت تک ہماری زبانیں قومی زبانیں تھیں۔

1947 میں ہم آزاد ہوے ہمارا اپنا ملک بنا ایک آزاد ملک۔ پھر بعد میں ہمارے قومی زبانیں علاقائی زبانیں کہلوانے لگیں۔ کراچی میں 1200 سو سندھی میڈیم اسکول بند کر دیے گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ، مزید سندھی اسکول کھولے جاتے اور ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کے لئے بھی اردو میڈیم اسکول کھولے جاتے تاکہ وہ بھی اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے۔ تاہم سندھی میڈیم اسکول بند کروانے کی منطق آج تک سمجھ سے باہر ہے۔

آزادی کے بعد جو سب سے بڑا کام ہوا وہ تھا قومی زبانوں کو قومیت سے نکالی دینا! سندھیوں نے پھر بھی سیاسی شعور کی بنیاد پر سندھی زبان کو ادب اور تعلیم کا حصہ بنائے رکھا۔ باقی قوموں نے اپنی قومی زبانیں بولنے کی حد تک زندہ رکھیں۔ ہمارے پنجاب کے اندر تو گُر مُکھی ( پنجابی زبان کا رسم الخط ) کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا، جو بے وفا محبوب اپنے عاشق کے ساتھ کرتا ہے۔ اور گُر مکھی بھی سکھوں کا رسم الخط قرار دے کر پنجاب سے رخصتی دی گئی۔

پنجابی بولنے والوں کو لہجے کی کچھ زیادہ فکر لگ گئی کہ پنجابی زبان بول کر لہجہ خراب ہوگا اور بچے پینڈو لگیں گے۔ اس۔ کے نتیجے میں پنجابی زبان گھروں میں بولنے کا رواج کم ہوتا گیا۔ ہم نے تھوڑی دیر کے لے بھی نہیں سوچا کہ وہ بچہ بلہے شاہ کو اور وارث شاہ کو کیسے پڑھے گا۔ آگے جاکر وہ بچے کیسے پہچانیں گے اپنی خوبصورت زبان، تہذیب اور عظیم شاعروں کو۔

تحقیق کے مطابق یونیسکو کی زبانوں کی فہرست میں 73 زبانیں پاکستان میں بولی جاتیں ہیں۔ ِان زبانوں کے ترقی اور فروغ کے لئے کیا کام ہوا اس کے آگے بڑا سوالِیہ نشان ہے۔ اردو پیاری زبان ہے ہم اردو سے بھی محبت کرتے ہیں کیونکہ اس کی توسط سے ہم ملک کے باقی لوگوں سے رابطہ قائم رکھتے ہیں۔ اردو بولنے والوں کے لئے یہ ان کی مادری زبان ہے اور باقی لوگوں کے لیے اردو رابطے کی زبان ہے، جس کو انگریزی میں لنگوا فرانکا کہا جاتا ہے۔

ہمیں پڑھایا گیا کہ سورج سے زیادہ روشن چاند ہے اور سورج چاند سے روشنی لیتا ہے۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے اور زحمت ہی نہیں کی کہ سچ کو جانتے۔ صدیوں پرانی زبانوں کی قدامت کو ایک زبان کے کمبل تلے نہیں لپیٹا جاسکتا۔ اب یہ بات لبوں سے نکل کر ملک کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں جو زبانیں اکثریت میں ہیں ان کو قومی زبان کا درجہ واپس دے کر پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنایا جانے چاہیے۔ یہ ذمہ داری ہم سب پہ لاگو ہوتی ہے۔ اس پرچم کے سائے تلے ہم بہت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).