”حسب حال“ کے کلاکار


اداکارسہیل احمد (حسب حال ٹی وی شو والے عزیزی) کے لئے نہ جانے کیوں ایک احترام ومحبت کا جذبہ دل میں پاتا ہوں۔ پھرجب سے یہ معلوم ہواکہ میرے ممدوح قاضی حسین احمد مرحوم کوبھی ”حسب حال“ کامیڈی شوپسند تھا توشاید ہی میں نے اس شو کا وہ سگمنٹ کبھی چھوڑا ہو جس میں عزیزی صاحب، معاشرے کے مختلف طبقات کا سوانگ بھرتے رہتے ہیں۔ ( پس پردہ رائٹرز بھی داد کے مستحق ہیں ) ۔

مذکورہ بالا شو کے سگمنٹ میں ایک سیکوئل ایسا بھی چلا کرتا ہے جس میں ہماری سوسائٹی میں موجود تین قسم کے گلوکار مدعو کیے جاتے ہیں۔ میزبان کے سامنے تین مہمان تشریف فرما ہوتے ہیں۔ ایک تو پاپ سنگر ہے جونئی نسل میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ دوسری جوڑی لوک گلوکاروں کی ہے جو ہمارے دیہاتی سماج میں مقبول ہوتے ہیں۔ جبکہ تیسری جوڑی کلاسیک گلوکاران، یعنی روایتی خان صاحبان کی ہے۔

پروگرام کا سیٹ اپ اور گیٹ اپ دونوں کمال ہیں۔ خان صاحب خود بھی عمررسیدہ ہیں اور اپنے ساتھ اپنے ایک ”بزرگ تر“ استاد گرامی کو بھی پروگرام میں ساتھ لایا کرتے ہیں۔ بات بات پہ اپنے استاد کے گھٹنے چھو کر، روایتی ادب و آداب کا مظاہرہ بھی فرماتے رہتے ہیں۔ میزبان (جنید سلیم) نے بھی دونوں بزرگوں کو احتراماً ایک صوفہ پہ بٹھایا ہوا ہے جبکہ باقی کلاکار، عام سٹولز پر بیٹھے ہوتے ہیں۔

صورتحال یہ ہے کہ جو پاپ سنگر ہے وہ جدید نسل میں مقبول ہونے کی بنا پرخاصا امیر دکھائی دیتا ہے۔ لوک گلوکاروں کی بھی میلوں ٹھیلوں میں مانگ ہے پس ان کی دال روٹی بھی خوب چلتی ہے۔ مگر کلاسیکی اساتذہ، جو کہ خود کو ”ہم چوما دیگرے نیست“ گردانتے ہیں، وہ فی زمانہ، عوام وخواص کی طرف سے پذیرائی نہ ملنے پرتنگ دامنی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

شوکی گفتگو کا موضوع ہوتا ہے ”موسیقی کے تین رنگ“۔ میزبان صاحب، تینوں فریقین سے فن موسیقی کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ پاپ سنگر اور لوک گلوکار فوراً اپنا اپنا آئٹم پیش کردیتے ہیں۔ جبکہ خان صاحب ( جن کی وضع قطع ہی نہیں بلکہ بات چیت کا بھی ایک مخصوص سٹائل ہے ) ، صرف دوسرے فریقین کوڈانٹتا رہتا ہے۔ خان صاحب، انہیں گلوکار ماننے کوہی تیار نہیں کہ یہ لوگ ”بے سرے اور بے تالے“ ہیں۔ موسیقی کے سات سُرہوتے ہیں اور ہر سُر کی ایک خاص لے ہوتی ہے۔ اگر یہ سُر اور تان (فریکوئنسی اور پچ) ، ایک خاص ترتیب میں پیش کیے جائیں تو انسانی اعصاب وجذبات میں ہل چل مچاتے ہیں۔ (اسی اعصابی ورزش کو شاید روح کی غذا کا نام دیا گیا ہے ) ۔

جس زمانے میں موسیقی کے جدید آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے (ڈھول، بانسری اور رباب جیسے دوچار گنتی کے سازہوتے تھے ) تو اس زمانے میں، ہند کے علمائے موسیقی نے ”سات سُر“ ایجاد کیے تھے۔ ایک پختہ کار گلوکار، اپنے گلے کے خاص پوائنٹس سے (یا اپنے ہونٹ کی ٹیڑھی میڑھی حرکات کی مدد سے ) گویا ایک دھن تخلیق کرتا تھا۔ آج کل بھاری آرکسٹرا اور جدید الکٹرانک آلات نے خود ہی ویسا ردھم مہیا کردیا ہے توحلقوم سے اس مشقت کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ مگرہمارے ”خان صاحبان“ کو اصرار ہے کہ اصل موسیقی صرف انہی کے پاس ہے اور جاہل عوام، بیوقوف اور ناشکرے ہیں کیونکہ ان جیسے مستند اساتذہ کی بجائے، جدید ”نام نہاد“ گلوکاروں کو سنا کرتے ہیں۔

ادھر ”حسب حال“ پروگرام کا میزبان بار باران سے درخواست کرتا ہے کہ حضور، آپ ہی کو اصل اہل فن مان لیا مگر کچھ فن تو پیش کیجئے۔ خان صاحبان مگر اپنا کچھ ہنرپیش کرنے کی بجائے ( حالانکہ بڑے خان صاحب نے طنبورہ بھی گود میں رکھا ہوا ہوتا ہے ) ، اپنے اسلاف کی داستانیں سنانا شروع کردیتے ہیں کہ کیسے ان کو مہاراجہ کے درباروں میں عزت دی جاتی تھی؟ میزبان صاحب، پاپ سنگر اور لوک فنکار سے کچھ سنانے کی فرمائش کرتا ہے تو وہ دونوں فریق بے دھڑک اپنا فن پیش کردیتے ہیں۔

مگراب ہمارے کلاسیک خان صاحب، ان دونوں کو بھی گانے نہیں دیتے۔ درمیان میں ان کو ٹوکتے ہیں اور ان پرجگت بازی کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ جب وہ لوگ، ایک خاص حد تک برداشت کے بعد، جوابی جگت بازی کرتے ہیں تو ہمارے خان صاحب، فوراً اپنے بڑے خان صاحب کے گھٹنے چھو کر، میزبان سے کہتے ہیں ”دیکھئے، دیکھئے، یہ ہمارے استاد کی شان میں گستاخی کررہے ہیں“۔ (کبھی کبھی تو بڑا خان صاحب بھی ”اکابر“ کی آڑ لینے پر تنگ آکرکہتا ہے کہ بھائی، خود کی جگت مجھ پر مت پلٹاؤ) ۔

اس سگمنٹ میں سب سے مزے کا سین وہ ہوتا ہے جب میزبان کا فرمائشی اصرار بڑھ جاتا ہے تو خان صاحب، بجائے فن کا مظاہرہ کرنے کے، کسی نہ کسی بات پر ناراض ہوکر واک آؤٹ کرجاتے ہیں۔ واک آوٹ کا سین بھی بڑا دل چسپ ہوتا ہے۔ جس طنطنے سے واک آؤٹ کو اٹھتے ہیں، وہیں اپنی بے روزگاری کا خیال آتا ہے اور پھر واپسی کا بہانہ بھی ڈھونڈتے ہیں۔

مجھے خان صاحبان پر بڑا ترس آتا ہے کیونکہ ان کو ابھی تک موسیقی کا اصل مقصد ہی سمجھ نہیں آیا۔ موسیقی میں ساز وآواز وغیرہ اس لئے ترتیب دیے گئے تھے کہ ان کا سامع، حظ ولذت کشید کرے، اس کے انتشارزدہ اعصاب کو یکسو کیا جائے اور اسکے جذبات میں نشاط پیدا کیا جائے۔ اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے سُر، لے، شاعری و رقص ایجاد ہوئے۔ یہ سب موسیقی کے لئے فقط اسباب اور آلات ہیں نہ کہ اصلِ موسیقی ہیں۔ ہدف، راگ نہیں ہوتا بلکہ سامع ہوا کرتا ہے۔

چنانچہ، سامعین کی نشاط طبع کا تقاضہ کسی اور رنگ کا ہوتو اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے آلات وغیرہ بھی بدل جائیں گے۔ ہر زمان ومکان کے سامعین کا ذوق جدا ہوتا ہے مگر بیچارے خان صاحبان یہی سمجھتے ہیں کہ لاطینی امریکہ والوں کو بھی اگر ان کے اسلاف کے وضع کردہ ”سات سُروں“ کا علم نہیں ہے تو وہاں گویا موسیقی کاوجود ہی نہیں ہے۔ اپنے اس رویہ کی بنا پر، خود تو فاقوں مر رہے ہیں مگر ساتھ ہی اس میدان کو اپنی ذاتی ملکیت قرار دے کر، دوسرے آرٹسٹوں کو بھی انٹر نہیں ہونے دیتے۔

مگر گاہک (یعنی عوام) پر بھلا کس کا اجارہ ہے؟ چنانچہ دنیا میں دیگرفنون کی طرح، موسیقی بھی حسب معمول پھل پھول رہی ہے۔ سٹیج اسی طرح آباد ہیں۔ نئے نئے گلوکار، نئے انسٹرومنٹ کی مدد سے، دنوں ہی دنوں میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرتے جارہے ہیں۔ ادھرہمارے خان صاحبان، اپنی کٹڑی میں بیٹھ کرگھنٹوں ”راگ درباری“ کاریاض فرماتے رہتے ہیں۔ اس بات سے بے خبرکہ اب نہ تو مہاراجوں کے دربار رہے اور نہ ہی رات بھر ”سا، رے، گا، ما، پا، دھا، نی“ سننے والے سامعین۔

اگر خان صاحبان کو فن موسیقی اور خود اپنی عزت کا کچھ خیال ہے تو ان کو نئے زمانے کا ادراک کرنا ہوگا۔

خان صاحبان کے پاس بہرحال موسیقی کا بنیادی اور اصولی علم بھی ہے، شعر شناسی اور غزل فہمی کا ڈھنگ بھی ہے، خاندانی شہرت بھی ہے تو ایک رائے یہ دی جاسکتی ہے کہ نئے آرکسٹرا کو استعمال میں لائیں جس سے فن موسیقی اور خود ان کی معاشی زندگی کا بندوبست بہترین ہوسکتا ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ نئے دور کی موسیقی میں صرف ذوق سماعت ہی نہیں بدلا، بلکہ اس میں حظ بصارت بھی شامل ہوگیا ہے۔ خان صاحبان کا احترام اپنی جگہ مگر جو چہرہ نظروں میں جچتا نہ ہو اور محفل میں پھبتا نہ ہو، اس کو سننا کارے دارد ہوتا ہے۔ چنانچہ، خاکسار کی رائے یہ ہے کہ خان صاحبان کو خود اپنے گھرانے میں موجود باصلاحیت نوجوانوں کے لئے اب جگہ خالی کرنا چاہیے اور اپنے برخورداروں کی سرپرستی کرکے، اپنی اور فن موسیقی کی عزت بچانا چاہیے۔

گاہے یوں ہوتا ہے کہ لکھتے ہوئے، اسپ خیال بے لگام ہوجاتا ہے۔ ہماری غائب دماغی ملاحظہ فرمایئے کہ بات ہورہی ہے کلاکار گھرانوں میں موجود، نئے ٹینلٹ اور اس کی سرپرستی کی مگر پردہ خیال پہ کچھ اور پٹی چل رہی ہے۔ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ جہاں تقی عثمانی جیسوں کی بھی راہ کھوٹی کی جاتی ہو، وہاں نوجوان عمار خان ناصر جیسوں کے سر پہ کون ہاتھ رکھے گا؟
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).