مرزا اعجاز بیگ
مرزا عبدالودود بیگ اردو کے بے مثل مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے ایک کردار ہیں۔ ہم نے عقیدتاً اُس نام سے ملتا جلتا کردارمستعار لیا ہے کہ شاید اِس سے تحریر میں اُس چاشنی کا رنگ آجائے جو یوسفی صاحب کی تحریر کا خاصہ ہے۔ اس تحریر میں کسی مماثلت کو اتفاقی جانیے گا۔ اگر کسی اور سے مطابقت پائیں تو اتفاقی جانیں۔
مرزا اعجاز بیگ ہمارے دفتری ساتھی ہیں، نوکری میں ہم نے اُن کے جوہر خوب دیکھے۔ فرماتے کہ نوکری کو اخلاقیات سے الگ رکھو کہ نوکری میں قول و فعل کا تضاد خامی نہیں بلکہ خوبی ہے۔ مزید فرماتے کہ نوکری میں انسان پھول کی مانند ہونا چاہیے، مگر ہر ایرے غیرے پھول کی مانند نہیں بلکہ سورج مکھی کے پھول کی مانند کہ ہر وقت چہرہ سورج کی جانب ہونا چاہیے۔ ہمیں اِن افکار پر سوچ میں پا کر مزیدرہنمائی کی خاطر کہنے لگے کہ دفتر میں اُس مر غی کی مانند ہو جو انڈا دے نہ دے کُڑکُڑ کی مسلسل آوازیں نکال کر سب کو اپنے جانب متوجہ رکھتی ہے۔ سو اسی بنا پر دفتر میں کردار نہیں بلکہ گفتار کے غازی کی شہرت رکھتے تھے۔ زبان کا استعمال مرزا کے مقابل ہم نے کسی کا نہ پایا۔
ایک دن ہمیں نصیحت کرتے کہنے لگے کہ مقبولیت پر نہیں بلکہ قبولیت پر کام کرو۔ پھر اپنے اِس قول کی اپنے لحاظ سے یوں تشریح کرنے لگے کہ مقبولیت تب حاصل ہوتی ہے جب آپ اپنے ماتحتوں کا خیال رکھیں، اِس سے ماتحتوں کو کوئی فائدہ ہو تو ہو، آپ کچھ نہ پائیں گے۔ اِس کے بر ٰعکس آپ کا افسرِاعلی آپ کو قبول کر لے تو آپ فائدہ میں رہیں گے۔ جان لو کہ ماتحتوں کو تنگ کر کے رکھو گے تو اوپر والوں کی نظر میں اہمیت پاؤ گے۔ سو اِسی بنا پر مرزا کے ماتحتوں میں سے جو تبادلہ کر وا پایا دوسرے دفتر کو عازمِ سفر ہوا، جو نوکری چھوڑ سکتا تھا، نوکری چھوڑ بھاگا۔ جو اِن دونوں صورتوں سے قاصر تھے، اُس نے قسمت کا لکھا جان کر قبول کیا کہ شاید آخرت میں اِس تکلیف کا اجر پائے۔
ایک دن مرزا کے دفتری نظریات سے اختلاف کرتے ہم نے کہا کہ مرزا ہمارے خیال میں ہمارا مسئلہ نافرمانی نہیں بلکہ تابعداری ہے۔ پھڑک گئے، کہنے لگے نوکری کے لیے جو وسعتِ نظر کی ضرورت ہے، آپ اس سے عاری ہیں۔ اُس کے بعد ایک لمبا لیکچر دیا، جس کے بعد ہمیں آنکھیں ڈھانپے، دائرے میں چلتے کولہو کے بیل پر رشک آنے لگا۔ بلکہ ہم نے مرزا کو غور سے دیکھا تو ہمیں آنکھوں پر بندھا کپڑا صاف دکھائی دیا۔
ایک دفعہ خلافِ معمول مرزا کو دنیا کی بے ثباتی پر رنجیدہ پایا۔ استفسار پر بتایا کہ کل بعد از نمازِ مغرب مسجد میں میلاد پر اُن کے افسر اعلی مہمانِ خصوصی تھے۔ مرزا اُس دن کے اثرات پر زور دیتے فرمانے لگے کہ وہ دن ہی کچھ ایسی مبارک ساعت تھا کہ مرزا جو کہ صرف جمعہ کے جمعہ مسجد کا رخ کرتے تھے، عصر سے ہی مسجد کی جانب کھنچے چلے گئے۔ کارنر پلاٹ کی مانند ایک موقع کی نشست چنی۔ دروغ بر گردنِ راوی یعنی بر گردنِ مرزا، کہنے لگے کہ اُس افسرانہ موجودگی سے ماحول میں اتنی نورانیت آگئی تھی کہ فرشتوں کے پر پھڑ پھڑانے کی آواز صاف سنائی دیتی تھی۔
مولنا صاحب کے وعظ میں وہ اثر تھا کہ باس کے پہلو میں بیٹھے مرزا بار با ر آبدیدہ ہو جاتے تھے، گیلے رومال سے بار بار اپنی خشک آنکھیں پونچھتے۔ مزید فرمانے لگے کہ واعظ کے ایک ایک لفظ پر دس نیکیاں تو اگلے جہاں ملنی تھی، مگر اُس دن تو اِسی دنیا کے سنورنے کا موقع تھا، اور مرزا کے بقول موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے بلکہ ہر وقت موقع کی تلاش میں رہو۔ سو اس بنا پر ہم نے مرزا کے ہاتھوں کئی مرتبہ بیگار کو موقع اور کئی مواقع کو بیگار بنتے دیکھا۔ پانی میں مدہانی گھما کر مکھن نکالنے کا اعلان کرتے، زبان دانی کی داد دیجیئے کہ اُن کے بڑے مان بھی لیتے کہ وہ یہ معجزہ کر دکھائیں گے۔ آخر میں یہ بیگار بن کر ماتحتوں پر برستی، آخر میں مکھن کیا نکلتا کوئی ماتحت مورد ِالزام ٹھہرتا ورنہ مرزا تو دوامی مشین کب کی بنا چکے ہوتے۔
مرزا محبت اور جنگ کی سطح پر نوکری کو بھی رکھتے تھے کہ اِس کے لیے سب حرکات جائز جانتے تھے۔ ادارے کے نفع و نقصان سے بالاتر ہو کر اپنے نفع و نقصان کا خیال کرتے اور اپنے بعد اپنے افسر اعلی کے نفع و نقصان کا خیا ل کرتے کیونکہ نوکری کی ریاضی میں اگر آپ اپنے بڑے کا فائدہ کر پائیں تو اجر آپ تک بھی آتا ہے۔ سو اس بنا پر ہم نے مرزا کو اکثر ادارے سے بڑھ کر شاہ کا وفادار پایا۔
یوسفی صاحب نے جھوٹ کی تین قسمیں بتائی ہیں ؛ جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار۔ اسی بنا پر مرزا کو سرکاری اعداد و شمار سے خاص شغف تھا۔ اعداد کی قلابازی سے مرزا دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے پر قادر تھے۔ ایک دفعہ ہمارے پوچھنے پر بتانے لگے کہ اُن کے آباء میرٹھ میں عدالت کے قاضی تھے، دن میں عدد کی بات طے ہوتی، شام کو شمار کرتے۔ سو سائل کی جیب کے مطابق عدالتی کاغذات سے جادوئی کبوتر سے لے کر حسینہ ایمان فروش تک نکال لاتے تھے۔ غر ض یہ کمال آج حاصل نہ کیا تھا بلکہ بچپن سے ہی اعداد و شمار سے محبت ہو گئی تھی۔
مرزا ہر ہفتے بالوں کو سیا ہ رنگتے تھے۔ ہمیں کہنے لگے کہ بالوں اور دل کا رنگ متضاد ہوتا ہے، سیا ہ بالوں والوں کا دل روشن ہوتا ہے۔ ہم نے اختلاف کی اجازت چاہی اور کہا مرزا گو ہم نے بعض سفید بالوں والوں کو دل کا سیا ہ پایا مگر بعض کو دل کا روشن بھی پایا۔ کہنے لگے کہ کبھی کالے بکرے کی قربانی دی ہے، باطن کا اجلا ہوتا ہے اسی لیے تو دافٰعِ بلیات ہے۔ سو مرزا نے اعمال کی بجائے بالوں کی سیاہی کو نیکی جان رکھا تھا۔ مرزا سے ایک دفعہ تعلیم پر گفتگو ہوئی، مسکرا کر کہنے لگے جتنی مرضی تعلیم حاصل کر لو، ہمارا تجربہ تو یہ ہے کہ موٹی کھال پر بارش اور تعلیم دونوں اثر نہیں کرتے۔
مرزا غلامیِ اعلی کے خوگر تھے، اپنے کمالات کی بنا پر لوگوں کی بد دعا اور ترقی پر ترقی لیتے رہے۔ کئی عرصہ بعد ملاقات ہوئی تو گئے دنوں کا ایک عکس تھے۔ ریٹارئمنٹ کے بعد ایک نوکری کی، وہاں بھی اپنی خو نہ بدلی، کسی اپنے سے بڑے اہلِ فن کا شکار ہوئے، انکوائری ہوئی، نوکری و عزتِ اعداد و شمار دونوں گئے، اب گئے دنوں کے قصوں پر اور اگلے شکار کی تلاش پر چل رہے تھے۔ ہم اب اور کیا کہیں، ”حق مغفرت کرے عجب غلام مرد تھا“۔
- دادی اور پوتی - 08/04/2024
- اور ہم نے کتاب چھپوائی - 26/03/2024
- صلہ - 18/10/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).