پر تشدد مظاہروں میں عوامی دلچسپی کی وجوہات


ہندوستان پر انگریزی قبضے کے زمانہ میں ایک انگریز فوجی نے ہندوستانی شہری کو دھونس جمانے کے لیے تھپڑ جڑ دیا، شہری کا رد عمل اس قدر شدید تھا کہ فوجی زمین پر گرپڑا۔ فوجی فوراً اپنے افسرکے پاس پہنچا، اور ہندوستانی شہری کو اپنی توہین کی پاداش میں پھانسی دینے کا مطالبہ کیا، افسر نے فوجی جوان کو 50 ہزار روپے دیے اور حکم دیا کہ یہ رقم ہندوستانی کو دیں دو، جوان کے پاس حکم کی تعمیل کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا۔

کچھ عرصے بعد ہندوستانی شہری انگریز کے دیے ہوئے 50 ہزار روپے سے شروع کی جانی والی تجارت کے بدولت صاحب ثروت ہوگیا، اور شہرکا معروف تاجر بن گیا۔ انگریز افسر نے اپنے ماتحت فوجی کو حکم دیا کہ اب اس ہندوستانی کی کوٹھی میں جاو، اور تمام حشم و خدم کے سامنے اپنے تھپڑ کا بدلہ لو، فوجی نے تعلیمات پر عمل کیا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہندوستانی شہری نے اپنی سرعام بے عزتی کے رد عمل میں چہرے پر منافقانہ مسکراہٹ سجانے پر ہی اکتفا کیا اور فوجی کو کوئی جواب نہ دیا۔

ورطہ حیرت میں مبتلا فوجی نے اپنے افسر کو قصہ سنایا، افسر نے کہا کہ پہلے جب تم نے اس کو تھپڑ مارا تھا تو اس کی کل متاع عزت نفس تھی جس کا اس نے بے پرواہی سے دفاع کیا، کیونکہ اس کے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا، اب جب اس کی تجارت وسیع ہوگئی، اور اس کے مفادات کاروبار سے جڑ گئے، تو اس کو مال و کاروبار سے محرومی کا خطرہ لاحق ہوگیا، لہذا اس نے اپنی عزت پر سمجھوتا کرلیا۔

اس قصے سے آزادی کی اہمیت، خواہشات اور اصول کی جنگ، عزت نفس اور مفادات کا تعلق سمیت کئی اسباق حاصل کیے جاسکتے ہیں، لیکن اس کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد اس قصے کی ایک ضمنی شاخ کو پاکستان میں ہونے والے حالیہ پر تشدد مظاہرات سے جوڑنا ہے، تاکہ ہم تشدد کے پیچھے کارفرما سوچ اور عوامل کا جائزہ لیں سکے ں، اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ شہریوں کی ایک جماعت سڑکیں بند کرکے، عوامی و ذاتی املاک کو نقصان پہنچا کر اور جلاؤ گھیراؤ کرکے اپنے جیسے شہریوں کی زندگیاں اجیرن کرتے ہے۔

اس سوال کے جواب کا ایک حصہ مذکورہ قصے میں پنہاں ہے۔ بدقسمتی سے ریاست پاکستان اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے، اس لیے شہری اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ریاست کو ایک ایسے شہری سے جس کو وہ صاف پانی، اچھا علاج، باعزت روزگار اور پر امن ماحول جیسی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے، ذمہ دارانہ سلوک کی توقع نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ شہری کا ریاست سے جذباتی تعلق ختم ہوچکا ہے، بلکہ بہت ممکن ہے کہ وہ محرومیوں کی وجہ سے ریاست یا نظام مخالف جذبات رکھتا ہو۔

محرومیوں کے شکار شہری سخت اوقات میں جلد بہک جاتے ہیں، ریاست سے کمزور رشتے کے باعث ریاست کے مفادات ان کی سوچ یا کم از کم اہتمام کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں، علاوہ ازیں ان کو کسی چیز سے محروم ہونے کا خوف نہیں ہوتا، لہذا وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر پر تشدد مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں، اور یہ بعید نہیں کہ ان کا یہ رویہ ریاست سے انتقامی جذبات کی ظاہری شکل ہو۔

تعلیم و تربیت کا فقدان بھی پر تشدد مظاہروں میں عوامی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں آج عوام کی ایک بڑی تعداد بنیادی معیاری تعلیم کی سہولت سے محروم ہے، المیہ یہ ہے کہ درسگاہیں اپنے محدود تعداد مستفیدین کو بھی ایسی ذہنی تربیت فراہم کرنے سے قاصر ہیں جو ان میں برداشت، تحمل، اختلاف رائے کا احترام، مذہبی غیرت جیسی صفات پیدا کرکے ان کوباعمل مسلمان، معاشرے کا ذمہ دارفرد اور اچھا شہری بنائیں۔ تعلیمی نظام میں نصاب، اساتذہ، درسگاہوں کا ماحول، سب اصلاح طلب ہیں۔

پر تشدد مظاہروں کے تسلسل کی ایک بڑی وجہ قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے۔ ریاست کی رٹ قانون کی حکمرانی کے ذریعے ہی قائم ہوتی ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہر شخص اپنے منصب، تعلقات اور وابستگیوں کی بنیاد پر حسب استطاعت قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے، یوں قانون ”لمبے ہاتھوں“ کے درمیان مذاق بن کر رہ گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ مشتعل ہجوم با آسانی قانون توڑتا ہے اورریاست کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں، ریاست ان کی پشت پر کھڑی ہو، ان کو ہر چھوٹے بڑے کو سزا دینے کا اختیار دیاجائیں، اور قانون توڑنے والوں کو سرعام نشان عبرت بنایا جائیں، تاکہ قانون کی عزت واحترام شہریوں کے دل میں بیٹھ جائیں۔

آخر میں ایک سیاسی نکتہ انتہائی اہمیت کا حامل اور قابل توجہ ہے، تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ حکومت یا ریاستی ادارے جب وقتی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کسی ایسے گروہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو ریاست کا احترام نہیں کرتا، تو وقتی ضرورت پوری ہونے کے بعد اس گروہ سaے چھٹکارا مشکل ہوتا ہے اور وہ انہی ریاستی اداروں کے گلے کا کانٹا بن جاتا، لہذا عقلمندی کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے سابقہ تجربات سے سبق سیکھیں اور اپنی غلطیوں کو بار بار دہرانے سے گریز کریں، کیونکہ ملک اب مزید غلطیوں کا متحمل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).