سفر زاد


آج کل کے پُرشور ماحول میں پڑھنے کے لئے پُرمغز تحاریر میسر ہو جانا بڑی نعمت ہے، اسامہ خالد کی نظموں سے میرا پہلا تعارف سوشل میڈیا پر ہوا۔ کچھ عرصہ پہلے ان کی پہلی کتاب ”سفر زاد“ موصول ہوئی، جس کا زیادہ تر حصہ شاندار غزلوں اور آخری حصہ نظموں پر مشتمل ہے۔ پہلی فرصت میں حصہ نظم پڑھ کر جی میں آیا، اسے پڑھنے والوں سے شئیر نہ کیا جانا ان نظموں کے ساتھ زیادتی ہوگی!

اگست 2018 میں شائع شدہ ”سفر زاد“، اسامہ خالد کے شعری سفر کے امکانات کی تمام حدود واضح کرتی نظر آتی ہے۔ پہلی نظم ”خدا کو میری نظمیں اچھی لگتی ہیں! “
پڑھ کر میرے ذہن میں
James Joyce
کا شاہکار ناول
A Portrait of the Artist as A Young Man
گھوم گیا جس میں آرٹسٹ کو تمام لسانی، معاشرتی، مذہبی حدود سے گُزار کر بلآخر خدا کا سا حوصلہ، ظرف، رنگ، انگ، سوچ اور طرزِ فکر پال کر مخلوق سے صرف ”خالق و تخلیق“ کا رشتہ بنانے کا درس ہے۔ اسامہ کی اس نظم میں دونوں ماوتھ پیس مل کر ایک صدا لگاتے سنائی دیتے ہیں، نظم کی چند متفرق سطریں ملاحظہ ہوں :

خدا کو حسن بھاتا ہے! ”
خدا کو راگ اچھے لگتے ہیں
خدا کو عشق بھاتا ہے!
خدا کو وصل بھاتا ہے!
خدا کو وصل کے سارے بہانے اچھے لگتے ہیں!
خدا کو خاص نوعیت کے دکھ بھی اچھے لگتے ہیں!
خدا کو سانحے بھاتے ہیں!
مری یہ نظم بھی تو سانحہ ہی ہے! ”

انگریزی ادب کے بڑے قلمکار ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کے مطابق:
In order to possess what you do not possess, you have to go by the way of dispossession۔
شاعرکے سفر کو یہاں
Dispossession
سے گزار کر حقیقی آرٹسٹ کے روپ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

نظم کا آفاقی ہونا نظم اور شاعر دونوں کوالگ طرح کی مضبوطی عطا کرتا ہے، نظم ”روایت کو بدلنے کی ضرورت ہے“
General to particular
کا سفر سادگی سے بیان کر رہا ہے :
” کہ ہم اوروں کے حق کی نیند سوتے تھے
ہمارے ہاتھ جو پہلے سفیدے کاٹنے کے کام آتے تھے
اب اک اونچی سڑک اور کھائی کا ’پُل‘ ہیں
ہماری آنکھ سے بہتا ہوا کچھ حسرتوں کا ’تیل‘
خوابوں کے پھسلنے کو بہت کافی ہے
جس میں رائیگانی کا کوئی امکان اضافی ہے ”

اور اس رائیگانی کے سفر میں بھی شاعر کا ’سفرِ انا‘ مستقل قائم و دائم ہے :
”اُسے تنبیہہ کر دینا غلط بہتے ہوئے دریا سے خود ہی پیچھے ہٹ جائے“

اسامہ کی نظموں میں کچھ الفاظ کلیشے کی طرح ملتے ہیں جن میں ’سرطان‘ ’پانی‘ ’دشت‘ ’خواب‘ کے الفاظ نمایاں ہیں جو اداسی، سفراور وقت کی کہانی سناتے ہیں۔ ساتھ ساتھ کہیں رومینس کی نظمیں شامل کی گئی ہیں جس میں طنز کے ساتھ فینٹسی کا رنگ ابھرتا ہے :
” اور کس کو پتا ہے کہ اس کے ریتلے جسم کو صرف چکھنے میں ہی کتنے دریا بدن
تپتے صحرا بنتے ہیں! ”

رومینس کی اک اور نظم ”عیدِ سعید“ میں شاعر نے فانی دائرہ کار سے لافانی منظر کشید کیا ہے، جو سطحی طور پر ایک فرد اور گہری سطح پر ایسی تخیلاتی پرواز ہے جو عصرِ حاظر میں جدید نظم کے سب سے بڑے شاعر نصیر احمد ناصر کے
’Concept of time‘ and ’Time to Timelessness‘
سے ملتا جلتا ہے۔ اس نظم کے جدید طرزِ اظہار نے اسے اور بھی دلچسپ بنا دیا ہے :

” دیکھو! تمہیں مَیں اپنا جیون بھی بلا سکتا ہوں
لیکن کوئی فانی شے بطورِ استعارہ کیوں؟
محبت ایک لافانی عقیدہ ہے
تمہیں معلوم ہے تم ہی وہ لافانی عقیدہ ہو۔ ۔
’تم‘
اک ایسی نیند ہو جس کو کسی بھی خواب کی ٹینشن نہیں ہے ”

Philip Larkin
کی مشہور زمانہ نظم
، Church Going
سے کون واقف نہیں! جو اُس زمانہ کے مذہبی زوال کی نشاندہی بہت شاندار طریقے سے کرتی رہی ہے، نظم میں فلپ لارکنز ایک چرچ میں اچانک رک کر، بلا ارادہ اندر داخل ہو جاتا ہے اور پھر وہاں رک کر خاموشی سی ہر ایک چیز کا جائزہ لیتا ہے اور گرد میں اٹی چیزوں سے اندازہ لگاتا ہے کہ کافی عرصہ سے لوگوں نے ان عبادت گاہوں میں آنا چھوڑ دیا ہے۔ اسامہ خالد کی نظم ”لا عنوان“ بالکل اسی منظر کا عکس محسوس ہوئی، کچھ سطریں دیکھیے :

” پرانے ناروے کے شور سے آزاد سڑکوں پر چہل قدمی
صدی کے سب سے افسردہ مناظر میں
سرِ فہرست ہے۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ سینٹ ٹھامس چرچ میں
Jesus
کے پاوں پر گرا
صدیوں پرانا اشک غائب ہو چکا ہے
لالٹین اپنی حرارت خرچ کرتی جا رہی ہے ”

اسامہ کی نظم کا شاعر، مخاطب کو اپنا آئینہ تصور کرتے ہوئے اپنی حد خود متعین کرتا ہے اور پھر اسی کو پار کرنے کے خواب، رائیگاں ہوتے دیکھ کر اداسی اور گھٹن کا شکاردکھائی دیتا ہے۔ ان کی نظم
”Dark They Were & Golden۔ Eyed“
کہیں نہ کہیں آج کے انسان، خاص طورپر نوجوان نسل کا مارڈرن المیہ ہے جو آہستہ آہستہ اس صدی کا دکھ بنتا جا رہا ہے۔ اسی طرح نظم ”اور تم آ گئی“ کی سطریں :

” محبت کے اسم گرامی سے وحشت زدہ ذہن جو
’ سارہ‘ ، ’ثروت‘ ، ’شکیب‘ ، اور ’آنس‘ کے نقش قدم تک
رسائی کی دھن میں
جگہ بہ جگہ ریل کی پٹڑیاں دیکھتا تھا! ”

’ماڈرن ہولو مین‘ کے اندر کی گھٹن کے لیے
Sylvia Plath
کے جیسا فرار ڈھونڈتی نظر آتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ شاعر، امکانات کا کینوس بھی خود تشکیل دینا چاہتا ہے اور پھر اس پر اپنی مرضی کے رنگ پھینکتا ہے اور پھر خود ہی اس سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے، قاری بنا چاہے خود بھی شاعر کے محضوظات کا حصہ دار بننا پسند کرتا ہے اور کسی بازی گر کی طرح اسامہ خالد، کسی بھی پل، نظم میں کوئی بھی سٹروک کھینچ کر کینوس کا فلٹراور قاری کا موڈ چینج کر دیتا ہے!

سفر زاد کی نظموں میں وقت اور اعداد کو خوشی اور اداسی سے بھی متصل کیا گیا ہے، مثلا 3 کے عدد کو کئی نظموں میں اداسی کے پہلو سے جوڑا گیا ہے۔ اسی طرح طاق اعداد کا استعمال نظموں کے ماحول کو مِسٹری اور گوتھِک بیوٹی عطا کرتا ہے۔
نظم
”Four Nights To See“

کا شاعر، جابجا انسان اور خدا کے تعلق کے سفر میں وقت اور رائگانی پہ نوحہ کناں و زیرِ اضطراب ہے۔ مزید ازاں، اس میں بھوک، افلاس، مذہبی زوال و تفرقات کی نشاندہی، پس ماندہ علاقوں کی تکلیف دہ منظر کشی اور زندہ ہوتے ہوئے مردہ روح رکھنے والوں کا دکھ انتہائی سنجیدہ طریقے سے پرویا گیا ہے۔ نظم کئی حصوں میں بانٹی گئی ہے جس کی سطریں پیش ہیں :

” بھوک جس نے نظم گو شاعر کی اک تعداد کو
اپنی سنہری کوکھ سے جنما ہے ”

سفر زاد کی آخری شامل کردہ نظم ”مشورہ“، اسامہ کی اتنی سی عمر میں سوچ کی پختگی کی علامت ہے جس میں مشورے کے نام پر ایک اچھی نصیحت کے ساتھ ایک اور عصری المیے کی نشاندہی بڑی عمدگی سے کی گئی ہے :

” اک نصابِ متروکا
صبح و شام پڑھنے سے
وقت تو گزرتا ہے
آگہی نہیں ملتی ”

سفر زاد، اسامہ خالد کی منفرد اور پختہ ترغزلوں، فردیات اور نظموں سے بھر پور کاوش ہے جس میں سے صرف نظمیہ حصہ اس تحریر میں شامل کیا گیا ہے۔ بلا شُبہ عصری اردو شعری ادب میں روایت سے جُڑا یہ جدید اضافہ، اہلِ ذوق کے لئے سامانِ دلچسپی سے کم نہیں!
ہم ایسے لوگ محبت ہیں سو ہمارے ہاتھ
گلاب بیچنے والوں کو دان کر دینا
( اسامہ خالد )
اس کم عمری میں اتنا اُپدیشک ہونے پر اسامہ خالد کے لئے تحسین و آفرین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).