چوٹیں گہری ہوں تو سمجھ نہیں آتا کہ درد کو بیان کیسے کیا جائے، ایسا ہی حال اس سمے مجھ پر بیت رہا ہے۔ عورت ہونا اور اس حقیقت کوتسلیم کرنا کڑواہٹ جیسا ہے۔ بچپن میں بھی مجھے گڑیوں سے زیادہ پتنگ بازی عزیز رہی کہ مجھے تازہ ہوا سے عجب نسبت ہے۔ شاید ہر آزاد روح اس سے پیار کرتی رہی ہو۔ اس سال سے پہلے میرے لئے عورت ہونے کو محسوس کرنا بھی اتنا اہم نہیں تھا کہ جھٹلائے جانے سے پہلے سچ کو آنچ کا پورا اندازہ نہیں ہوا کرتا۔
ذاتی تجربات سے لے کر معاشرتی مثالوں تلک ایک سلایڈ شو ہے جو دماغ میں چل رہا ہے اور اس منظر کا ہر گوشہ زخمی ہے۔ مجھے وہ ساری خواتین یاد آرہی ہیں جنہوں نے دستار کو اونچا کر دیا اور خود ریت میں زندہ دفن ہوئیں، وہ چہرے۔ جو بولتے نہیں ہیں مگر چیختے ہیں۔ وہ قدم، جو ہر بار دھکا کھانے کے بعد اسی طرح اُٹھتے ہیں جیسے چیونٹی، آدمی کی سفاک چالوں سے گھبرا کرچُپ چاپ راستہ بدل لیتی ہے۔ میرا معاشرہ اتنا آگے آکر بھی ان کریہہ ناک حقیقتوں میں لپٹ کر، کہیں پیچھے کھڑا ہے، جہاں بیٹی کے دفنانے کو مٹی کی نفسیاتی، روحانی، جسمانی اور کئی دوسری اقسام موجود ہیں!
Read more