دہشتگری، پاکستان اور بیانیے کا بحران


گزشتہ سترہ سالوں میں پاکستان میں دہشتگردی کے ہزاروں واقعات رونما ہوئے جن میں عام شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سمیت لاکھوں معصوم جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کی ہر واردات کے بعد یہاں کے سیاستدانوں، حکمرانوں، تجزیہ نگاروں اور دیگر ماہرین کو موقع میسر آ جاتا ہے کہ وہ دہشتگردی کی جنگ میں کیا کھویا، کیا پایا اور اس کے مضمرات وغیرہ کو زیرِ بحث لا سکیں۔

کراچی میں چینی کونسلیٹ پر دہشتگردوں کے حملے کے بعد ایک بار پھر یہی موضوع زبان زدِ عام ہے اور ہر کوئی حسبِ موقع اور حسبِ قابلیت پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں شمولیت اور کارکردگی کو زیرِ بحث لائے بیٹھا ہے۔ لیکن عام طور پر ہر بار ہی اس جنگ کی حمایت یا مخالفت میں جو بیانیہ سامنے آتا ہے وہ مضحکہ خیز حد تک تضادات سے بھرپور ہوتا ہے۔ عام مبصرین، جن میں حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی نام نہاد ”دفاعی ماہرین“ کی کھیپ بھی شامل ہے، کی تو بات ہی کیا کرنی، ان کی اکثریت کے بارے میں یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے پاس انہی پرانی، گھسی پِٹی اور غیرمنطقی باتوں کے علاوہ کچھ نہیں جو ہم سالوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔

بہرحال ہماری اصل غرض حکومتی بیانیے سے ہے، جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے نقطۂ نظر کا اصل ترجمان ہے۔ جبکہ ہمارے حکومتی اہکار جو بیانیہ ٹاک شوز اور دیگر فورمز پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے کسی منطقی نتیجے پر پہنچنا ناممکن نہیں تو کم از کم خاصہ دشوار ضرور ہے۔ اس بیانیے کے تمام نقائص کا تو ایک کالم میں احاطہ ممکن نہیں، البتہ اگر بنیادی نوعیت کی محض چند باتوں کا جائزہ لیا جائے تو اس بیانیے کی بیشتر کمزوریوں کو سمجھا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر سب سے زیادہ کہی جانی والی بات کہ ”افغانستان میں امن کے بغیر پاکستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا“ پہ ہی غور کر لیں۔ اب تو یہ فقرہ زبان زدِ عام ہے، عام مبصرین تو شاید یہ بات کرتے ہوئے بھلے معلوم ہوتے ہوں گے، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستانی حکام یہ بات کیسے کہہ لیتے ہیں۔

وہ یوں کہ اگر یہ بات درست ہے کہ افغانستان میں امن کے بغیر پاکستان میں امن نہیں ہو سکتا، تو پاکستان پہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ ساتھ میں یہ بھی واضح کرے کہ اس نے افغانستان میں امن قائم کرنے کے لئے کیا اقدامات کیے ہیں؟ کیونکہ ایسا کیے بغیر، اس منطق کے مطابق، پاکستان میں امن قائم ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمارے حکام اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ افغانستان میں امن کی تباہی کی اصل ذمہ دار امریکی فوج کی افغانستان پہ مسلط کی جانے والے جنگ ہے، جس کے نتیجے میں وہاں امن ناپید ہے، اور افغان زمین گزشتہ سترہ سال سے مسلسل جنگی محاذ بنی ہوئی ہے۔ اس جنگ میں پاکستان امریکہ کا حلیف نہیں تو کم از کم ایک متحرک مددگار ضرور ہے۔ پاکستان کی مدد کے بغیر امریکہ افغانستان میں شاید ایک ہفتہ بھی نہیں ٹھہر سکتا، جبکہ پاکستان امریکہ کو مدد فراہم کرنے کے عوض کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں امریکہ سے بھاری رقوم بھی وصول کرتا چلا آیا ہے۔

یعنی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ پاکستانی حکام نہ صرف افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کے لئے امریکہ کی مدد کرتے ہیں، بلکہ اس مدد کی قیمت بھی وصول کرتے ہیں۔ تو جب پاکستان خود افغانستان میں امن قائم نہ ہو سکنے کا ایک حد تک ذمہ دار ہے، تو ہم اپنے ہی بیان کے مطابق خود اپنے ہی ملک میں امن نہ ہونے کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی بھی ہم سے پوچھ سکتا ہے کہ اگر واقعی پاکستان میں امن افغانستان میں امن سے مشروط ہے، تو پاکستان بتائے کہ وہ افغانستان میں امریکہ کو مدد کیوں فراہم کرتا ہے؟

اس تمام بحث سے لامحالہ یہی نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ اگر پاکستان کا یہ بیانیہ درست ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی حکام اپنے ہی ملک کے امن کو تباہ کرنے کی قیمت امریکہ سے وصول کر رہے ہیں۔ یہ یقیناً خوفناک حد تک پریشان کُن بات ہے۔ جبکہ اگر یہ بیانیہ غلط ہے، تو پاکستان کیوں اتنے تواتر سے اسے دہراتا چلا آرہا ہے؟

پھر بعض لوگ، مثلاً خود عمران خان، کم از کم حکومت میں آنے سے پہلے تک، یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں ہے، امریکہ کی ہے۔ بھئی اگر یہ جنگ آپ کی نہیں ہے تو پھر اسے لڑ کیوں رہے ہیں؟ امریکہ اور اس کی پالیسیوں سے علی الاعلان علیحدگی کیوں نہیں اختیار کی جاتی؟ امریکہ کے اس جنگ کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کی حمایت سے خود کو باز کیوں نہیں رکھا جاتا؟

اور اگر یہ جنگ آپ کی اپنی ہے، تو آپ آئے روز امریکہ کو اپنی قربانیاں گنوا کر اسے مطمئن کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کرتے ہیں؟ اور امریکہ سے ان قربانیوں کا صلہ (معاوضہ) کیوں طلب کرتے ہیں؟ ابھی چند روز قبل ہی وزیرِاعظم عمران خان نے امریکی صدر کو ٹویٹر پر جو پیغامات بھیجے ہیں وہ اسی کی مثال ہیں۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ہم بیان سے کچھ اور جبکہ طرزِ عمل سے کچھ اور ثابت کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں؟

بہرحال یہ ماننا پڑتا ہے کہ پاکستان کا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اپنایا گیا حکومتی بیانیہ کسی بھی طرح حقائق سے مناسبت نہیں رکھتا، اور اگر جائزہ لیا جائے تو خود اپنی ہی تردید کرتا نظر آتا ہے۔ ایسے میں جبکہ ہمارے عوام اور ادارے بیش بہا قربانیاں پیش کرکے دہشتگردی کو شکست دینے کے لئے پُر عزم ہیں، حکومتی سطح پر ایک مؤثر بیانیے کا فقدان اس طویل جدوجہد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ التبہ اگر حکومتِ پاکستان اس خطے میں امریکی جارحیت کی امداد سے خود کو باز کرلے تو بات بن سکتی ہے، لیکن اگر ہمیں اسی پالیسی پر چلنا ہے، جس پر ہم گزشتہ کئی سالوں سے چل کر اپنے آپ کو شدید نقصان سے دوچار کر رہے ہیں، تو ہمیں لازماً ایک نئے بیانیے کی اشد ضرورت ہے جسے معقول قرار دے کر قبول کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).