کیا جلدبازی ہمارا قومی رویہ ہے


خدا کے فضل سے ہم نے جب بھی کوئی سفر اختیار کیا اس میں کوئی نہ کوئی عجوبہ ضرور ہوا اور اس میں کچھ نہ کچھ عمل دخل ہمارا بھی ضرور رہا۔ یعنی بعد میں غور کرنے پر ہم پر یہی کھلا کہ یہ چن اپنا ہی چڑھایا ہوا ہے۔ خیر اس دفعہ جو ہوا اس کی تفصیل بتانے سے پہلے ہم آپ کو تھوڑا سا اس سفر کے بارے میں بتا ئے دیتے ہیں کہ کیوں اور کہاں کا سفر تھا۔

ہوا کچھ یوں کہ رواں سال اگست میں ہمیں انٹرنشپ کے لیے فرانس کے شہر مونٹپیلیئر جانا پڑا جو کہ جنوبی فرانس کا ساحلی شہر ہے اور یہان ”سپاگرو“ زراعت کے حوالے سے تحقیق کا ایک مشہور ادارہ ہے۔ ہمیں اس ادارے میں دو ماہ ریسرچ کے حوالے سے کام کرنا تھا جس کی تفصیل میں یقیناً آپ کو کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ خیر وقت مقررہ پر ہم نے اتاترک ائیرپورٹ سے اڑان بھری اور تقریباً تین گھنٹے بعد تولس اترے۔ یہاں سے وہ قصہ شروع ہوتا ہے جو کہ ہمارے لیے کافی کوفت کا باعث بنا۔

یہ تو ہم آپ کو بتا ہی چکے ہیں کہ ہمارا ہر سفر کسی عجیب و غریب واقعہ سے مزین ہے اور اس بار جو ہوا اس کی تفصیل جاننے کے بعد آپ بھی یقیناً ہماری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ اس میں ہماری ہی عقلمندی کا عمل دخل ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے ایئر پورٹ پر کلیرینس کے بعد جب ہم کنوئر بیلٹ پر اپنا بیگ اٹھانے کے لیے گئے تو وہاں بیگ ندارد۔ کافی دیر انتظار کیا کہ اگلے چکر میں تو ہمارا بیگ ضرور آ جائے گا لیکن ہر دفعہ ہماری نگاہیں اسی طرح بے نیل و مرام واپس آئیں جس طرح قاصد کوچہ یار سے آتا ہے۔

ارد گرد لوگوں سے پوچھا تو ایک بہی خواہ نے آفس کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں جائیں۔ ہم نے سوچا کہ شاید انہوں نے ہمارا بیگ سنبھال کے رکھا ہوا ہے اور جیسے ہی ہم رپورٹ کریں گے تووہ حق بحق حقدار ہمیں تفویض کر دیں گے لیکن شومی قسمت ”ہر چند کہ تھا نہیں تھا“۔ وہ تو یہ رپورٹ کروانے کا آفس تھا کہ ہمارا بیگ ہمیں نہیں ملا یعنی ایک طرح کی اطلاع گمشدگی تھی۔

خیر انہوں نے ایک فارم پر کرنے کے لیے دیا۔ اب وہاں سے ہمارا کردار، جو کہ عقلمندانہ ہرگز نہیں ہے، شروع ہوتا ہے۔ پہلا خانہ فارم میں نام کا تھا جو کہ بفضلہ تعالی ہم نے ٹھیک لکھ دیا۔ اس کے بعد فون نمبر کا خانہ اور ہمارے پاس فرانس کا فون نمبر نہیں تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنی لیب کا فون نمبر لکھتے لیکن ہم نے اپنا ترکی کا نمبر لکھ دیا جو کہ اب بند تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے سپروائزر کا موبائل نمبر بھی لکھ دیا جو کہ اپنی دانست میں ہم نے بہت عقلمندانہ کام کیا تھا لیکن ایسا نہیں تھا یعنی سپروائزر صاحب اپنا موبائل شاذو نادر ہی استعمال کرتے ہیں۔

خیر اگر بات یہاں تک ہی رہتی تو بھی گزارا ہو جاتا لیکن ہم نے اس کے بعد جو کارنامہ انجام دیا وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ فون نمبر کے بعد کا خانہ ایڈریس کا تھا جس میں ہم نے اپنی لیب کا مکمل ایڈریس لکھنے کی بجائے صرف ”یونیورسٹی آف مونٹ پیلیئر“ لکھنے پر اکتفا کیا جس کے کئی کیمپس ہیں۔ حالانکہ اگر ہم لیب کا ایڈریس لکھتے تو بہت آسانی رہتی لیکن جو قسمت میں لکھا ہو، ہو کر ہی رہتا ہے۔

ہمیں بتایا گیا کہ دو دن بعد بیگ ہمارے پاس پہنچ جائے گا اور یقیناً بیگ مونٹ پیلئر تو وقت مقررہ پر پہنچ گیا ہو گا لیکن ہمارے ایڈریس لکھنے کے کمال نے اسے ہم تک پہنچنے نہیں دیا۔ یعنی ہم نے نا مکمل ایڈریس لکھ کر اس کے راستے میں جو روڑا اٹکایا تھا وہ پہاڑ بن گیا حالانکہ محاورے کے مطابق روڑے اٹکائے جاتے ہیں لیکن ہم نے تو صرف روڑا اٹکایا تھا۔

خیر پانچ چھ دن انتظار کرنے کے بعد ہم نے ٹرکش ائرلائن کا فرانس کا فون نمبر ڈھونڈا اور ان کو اپنا صحیح ایڈریس لکھوایا اور انہوں نے ہمیں نوید سنائی کہ کل دیے گئے ایڈریس پر آپ کا بیگ پہنچ جائے گا۔ خدا خدا کرکے ہم بیگ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جو کہ اپنی اصلی حالت میں ظاہر ہے نہیں تھا کہ اتنے دن خجل خواری کے بعد تو اچھا بھلا انسان اپنی اصلیت کھو دیتا ہو وہ تو پھر بے جان چیز ہے۔

صاحب یہ تو ہماری کہانی تھی، جو مجبوراً ہمیں راجہ صاحب کو سنانی ہی تھی عادت جو ٹھہری، لیکن ان کے فلسفیانہ دماغ کا کیا کریں اپنے مطلب کا مطلب نکال کے ہمیں لیکچر جھاڑ دیا۔ کہنے لگے یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا قومی رویہ ہے۔ ہم بحثیت قوم جلدباز واقع ہوئے ہیں۔ کوئی بھی بات ہو یا تو عمل کرتے ہی نہیں یا پھر اس کو اچھی طرح سمجھے بغیر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں، اب چاہیے تو یہ تھا کہ تم اس فارم کو لے کر کہیں بیٹھ جاتے، پانچ منٹ سانسیں بحال کرتے اور پھر سوچ سمجھ کے مناسب معلومات لکھتے لیکن تم نے جلد بازی میں جو فوری ذہن میں آیا لکھ دیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

ہمارے سیاستدانوں کو دیکھ لو کہیں سے چھوٹی سی خبر کان میں پڑ جائے تو فوراً قوم کو خوشخبری سنانے پہنچ جاتے ہیں اور بعد میں جب کچھ نہیں نکلتا تو منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ مثلاً پچھلے دور میں چنیوٹ میں پتہ نہیں تانبہ، سونا وغیرہ نکلنے کی خبر چل نکلی تو چھوٹے میاں صاحب نے بڑے بھائی کو ساتھ لیا اور چنیوٹ میں جا کے جشن کی سی کیفیت میں پریس کانفرنس کر ماری اور عوام آج تک اس سونے کو ڈھونڈ رہے ہیں جو نہ نکلنا تھا نہ نکلا۔

اسی طرح خان صاحب کو دیکھ لیں پتہ نہیں شیخ صاحب سے یا کسی اور سے سپیڈ آف لائٹ کا سن لیا اور بغیر سوچے سمجھے تقریر میں فرما دیا کہ چائنہ وہ ٹرین ایجاد کر رہا ہے جو ”سپیڈ کی لائٹ“ سے چلے گی یعنی 300 ہزار کلومیٹر ایک سیکنڈ میں۔ بغیر سوچے سمجھے چائنہ کو ایسا اڑایا کہ پورے چوبیس گھنٹے تک ٹویٹر ”سپیڈ کی لائٹ“ کو اڑاتا رہا۔

راجہ صاحب کی باتیں سن کردل کو ایک تسلی تو ہوئی کہ ہم اپنی قوم کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں کیونکہ علامہ صاحب کہہ گئے ہیں

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
لیکن ضمیر کچھ خاص مطمئن نہیں ہے اور مسلسل کچوکے لگا رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).