فہمیدہ


جو بھی لکھّا سچّا لکھّا، جُھوٹ کے روپ دکھائے

کورا کاغذ لے کر آئی، جو دیکھا وہ لکھا

علم کی چادر میں جو تھے وہ کانٹے ہمیں دکھائے

ظالم ساری چھاﺅں کھا گئے، آگ لگی آنگن میں

زہر بھرا میٹھے قصوں میں، سانپ بھرے تن من میں

کورا کاغذ لے کر آئی جو دیکھا وہ لکھا

 سچّا لکھّا، وقت پہ لکھا، دل کے داغ دکھائے

ہریالی کی راہ دکھائی، خوشی کے باغ دکھائے

ہر ظالم طاقت کو آ کر میداں میں للکارا

ظلم کے سارے چہرے نوچے، سارے بھیس اتارے

مظلوموں کے آنسو پونچھے، غم کو گلے لگایا

آزادی کا جھنڈا لے کر ہر جانب لہرایا

شور مچا سب ایوانوں میں کون یہ باغی آیا

ہاتھ قلم کرڈالو اس کے اور زباں بھی کاٹو

بند کرو زندگی کے سب دروازے اِس عورت پر

طوق گلے میں ڈالو اس کے، زنجیریں پہناﺅ

بچ کر جانے نہ پائے، سب مل کر گھیرا ڈالو

حاکم دوڑے، مُلّا دوڑے، دوڑے تھانے دار

اس کے کورے کاغذ پر کالے افسانے لکھّے

وہ کاغذ جو ان کے کرتوتوں کا آئینہ تھا

کورا کاغذ لے کر آئی جو لکھا سچ لکھا

سچ لکھا اور وقت پہ لکھا دل کے داغ دکھائے

ہریالی کی راہ دکھائی، خوشیوں کے باغ دکھائے

اور یہ بھی بتلایا ہم کو دھوکے میں مت آنا

جو بھی مداری آتا ہے وہ صبح کے گیت الاپے

کورے کاغذ پر سارے کالے افسانے خاک ہوئے

سچ روشن تھے اُس کے، پڑھ کر ہم اُجلے اور پاک ہوئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).