ہیرو بننے کا صدری نسخہ!


لاہور میں گذشتہ چار برس سے فیض میلہ ہو رہا ہے۔ اس برس اس میلے پہ شرکت کے لیے جاتے ہوئے اچانک یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان جیسے ہیرو کش معاشرے میں رہتے ہوئے ہیرو کیسے بنا جائے؟

یہ انکشاف ہوتے ہی لمحہ بھر کو تو انسان کی ازلی کمینگی اور ابدی بھوک نے مجھ پہ غلبہ پایا اور چاہا کہ اس نسخے پہ خود ہی عمل کروں اور پھر اسے اپنے سینے کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن کر لوں اور اپنے ساتھ قبر کی پہنائیوں میں لے جاؤں۔

لیکن بوجوہ، جن میں سرِ فہرست میری پیدائشی بزدلی اور دریا دلی شامل ہیں یہ نسخہ، خود آزمانے کی بجائے عام کرنے کا فیصلہ کیا۔

گو نسخہ عام کرتے ہوئے بھی دل دھڑک رہا ہے اور خوف کے مارے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑے جا رہے ہیں لیکن کیا کروں، جرمن فلسفی نطشے کا فوق الانسان، ضدی بچے کی طرح دل میں ایڑیاں رگڑ کے پڑ گیا ہے۔

دوسرا یہ کہ دل میں کہیں دبی دبی سی امید یہ بھی ہے کہ اس نسخے کو عام کرنے سے شاید میں بھی ہیرو بن جاؤں۔

صاحبان ! اگر آپ سالہا سال سے لکھتے پڑھتے اور دانشوری بگھارتے چلے آ رہے ہیں، روزانہ ایک کالم لکھتے ہیں جسے ایڈیٹر کے سوا کوئی نہیں پڑھتا، ہر دوسرے دن ایک لیکچر دیتے ہیں جس کے دوران طلبا سو جاتے ہیں یا جمائیاں لیتے اور انگلیاں چٹخاتے رہتے ہیں، دو تین ناول لکھ چکے ہیں جنہیں بد مزاج، سنکی اور خبطی نقادوں کے سوا کسی نے نہیں پڑھا، آپ کا ایک عدد مجموعہ کلام بھی ہے جسے کوئی گل اندام سرہانے رکھ کے نہیں سوتی اور پان کی دکانوں پہ اس کے پنے، گلوریاں باندھنے کے کام آتے ہیں۔

سترہ، اٹھارہ ڈرامے بھی تحریر کر چکے ہیں جن کی شوٹ ختم ہونے پہ ڈائریکٹر اور کاسٹ خوشی میں کبوتر چھوڑتے ہیں، دو درجن سے زائد افسانے لکھ چکے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر، الغرض زمانہ آ پ کو کسی طرح سنجیدہ لینے پہ تیار ہی نہیں اور آپ کا زمانہ گزرا جا رہا ہے تو اب فکر کرنا چھوڑ دیجیے کیونکہ آپ کے ہیرو بننے کے دن نزدیک ہیں۔

جی ہاں! مملکتِ خداداد پاکستان کے بارے میں کم ظرفوں نے جانے کیا کیا بے پر کی اڑا رکھی ہے کہ یہاں آزادی کے بعد کسی کو ہیرو نہیں بننے دیا گیا اور یہ کیا گیا اور وہ کیا گیا مگر میں حلفیہ کہہ سکتی ہوں کہ جتنے معمولی لوگوں کو ہم نے آزادی کے بعد ہیرو بنایا ایسے لوگوں کو دوسرے ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ منہ لگانے کے قابل بھی نہیں سمجھتے۔

یہ لوگ ہیرو بننے پہ خود بھی اسی قدر حیران ہوتے ہیں جس قدر ہم ہوتے ہیں۔ اکثر تو خود کو چٹکیاں لے لے کے یقین دلاتے رہتے ہی کہ کیا وہ واقعی ہیرو بن چکے ہیں؟

مزید انتظار کرانے کی بجائے میں آپ کو وہ صدری نسخہ عطا کر ہی دوں جس کو سن اور سمجھ کے اور جس پہ عمل کر کے ہر کس و ناکس ہیرو بن سکتا ہے۔

توصاحبان ! وہ نسخہ یہ ہے کہ دانشوری کے میدان میں مکمل طور پہ فلاپ ہونے کی بعد ہمت ہارنے کے بجائے ایک مخصوص ادارے کے بارے میں عجیب عجیب پراسرار باتیں کرنا شروع کر دیجیے۔

آدھے ادھورے جملے، نامکمل اصطلاحات، آدھی بات کر کے مسکرائیے، خلا میں کھو جائیے ، جیسے وہاں آپ کو کوئی خلائی مخلوق نظر آرہی ہو۔

لاہور

بے بات آزادیِ اظہار اور معاشرتی انصاف کی بات کیجیے لیکن اس ادارے کا ذکر کرنا بے حد ضروری ہے۔ انشاللہ خدا نے چاہا تو سال چھے مہینے کے اندر ہی آ پ زود رنج ادارے کی نظروں میں آجائیں گے اور آپ کے کالم بند ہونا شروع ہو جائیں گے، ڈرامے بند ہو ں گے اور ناول سٹال اور ردی کی دکانوں سے غائب کر دیئے جائیں گے۔

اگر خدا آ پ پہ زیادہ مہربان ہوا تو ایک دن آپ کے نصیب ایسے کھلیں گے کہ آپ کے راستے میں ایک ویگو ڈالا آجائے گا۔ اسے دیکھتے ہی سمجھ جائیں کہ اب آپ کے امر ہونے کا وقت بہت قریب ہے۔

بس اب سے زندگی سرتا سر بدل جائے گی۔ وہی لوگ جو آپ کو گردانتے تک نہ تھے آپ سے تعلق میں فخر محسوس کریں گے ۔

جن اداروں میں آپ پاؤں نہیں دھر سکتے تھے آپ کو لیکچر کے لیے بلوائیں گے، جوانوں کی آنکھوں میں عقیدت ہو گی اور ملک کی عفیفائیں آپ کو ان باکس میں سلام بھیجا کریں گی۔

بہت ممکن ہے کہ کسی یورپی ملک کی شہریت بھی مل جائے۔ یہ آسان سا نسخہ ہے اور اس پہ عمل کرنے کی ہر خاص و عام کو اجازت ہے ۔ پرہیز وغیرہ کچھ نہ کیجیے ، جو دل چاہے کھائیں، پئیں (اعتدال کے ساتھ ) ۔

اس کا ہدیہ یہ ہے کہ راقم کے حق میں دعا کردیا کیجیے کہ اسے اس نسخے پہ عمل کیے بغیر اور ویگو کی زیارت کے بغیر د ائمی شہرت نصیب ہو جائے ۔ آمین !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).