جب فہمیدہ ریاض کی ”آواز“ پر چھاپہ پڑا


وہ سیڑھیا ں چڑھتی جاتی تھی اور کبیر کو بھینچ بھینچ کر چومتی جاتی تھی۔ اس دن اس نے بچے کو چوم چوم کر ہلکان کردیا۔ وہ پشتو زبان میں والہانہ انداز سے کوئی گیت گاتی جاتی تھی اور میری ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ بعد میں اس نے بتایا کہ یہ ویرتا کی شرارت لگتی ہے باجی کیونکہ میں ابھی ان دونوں کو خالہ نجمہ کے یہاں سے لے کر آ رہی تھی تو گلی میں ایک فقیر کٹورا بجا رہا تھا۔ یہ سن کر مجھے اور بھی ہنسی آئی۔ میں نے ویرتا کو گود میں اٹھالیا۔ ننھی بھولی بھالی ویرتا ہمیں ہنستا دیکھ کر حیران تھی۔

بے جا آرائش سے پاک وہ گھر اپنی تمام تر سادگی اور بے سر و سامانی کے باوجود زندگی سے لبریز تھا۔ فہمیدہ کی بڑی بیٹی سارہ سامنے والی کوٹھی میں اپنی نانی اور خالہ کے پاس رہتی تھی۔ لیکن دوپہر کو کبیر اور ویرتا کے ساتھ اکثر کھیلنے آ جاتی۔ کبیر کبھی دھمال ڈالتا تو ہوا میں جیسے قہقہے بکھر جاتے۔ وہ مجھ سے کچھ کچھ مانوس ہو چلا تھا تو کبھی کبھی میری میز کے قریب آتا اور مجھے شرارت بھری نظروں سے دیکھتا۔ اس کی بھنور سی کالی آنکھیں باتیں کرتی تھیں۔

میں اسے زور سے بھینچ کر بے تحاشا چومتی تو وہ آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہوئے بیک وقت ہنستا بھی اور روتا بھی جاتا۔ ایسے میں بی بی جان کے پاس جب وہ جاتا تو وہ جلدی سے اس کے ماتھے پر بڑا سا کاجل ٹیکہ لگا دیتی تھی۔ وہ ٹھیک ڈرتی تھی۔ میں نے بھی اتنا حسین بچہ اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ کاش وہ اتنا حسین نہ ہوتا یا بی بی جان نے اسے ایسا کاجل ٹیکہ لگا دیا ہوتا جسے کوئی ظالم لہر نہ دھو سکتی۔

فہمیدہ نے رسالے کا کام پہلے ہی دن سے بانٹ لیا تھا۔ انہوں نے بتا دیا تھا کہ دیکھو بی بی مجھے اور ظفر کو تو اشتہار حاصل کرنے کے لئے نکلنا پڑتا ہے۔ اب مضامین کی چھانٹی اور ڈاک وغیرہ دیکھنا اور پروف ریڈنگ یہ سب تمہارے ذمے ہے۔ گویا دفتر میں بیٹھ کر کرنے کا کام تمہارا اور باہر کا کام میرا۔ تو اکثر ایسا ہوتا کہ وہ اپنی خاص ادا سے ”آواز“ کے دفتر یعنی میرے دروازے میں جھانکتیں، ہیلو کرتیں اور تھوڑی سی باتیں کرتیں۔ کام کے بارے میں پوچھتیں اور پھر باہر نکل جاتیں۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک مانوس سی مسکراہٹ رہتی جس سے ان کے اندر کا حال بالکل ظاہر نہ ہوتا تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان کے حالات کتنے بگڑ چکے ہیں۔

کچھ دوست اور ہمدرد مجھے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے تھے کہ ”فہمیدہ ریاض کے بارے میں لوگ اچھی رائے نہیں رکھتے۔ وہ انقلاب وغیرہ کی باتیں کرتی ہیں۔ کسی دن دھر لی جائیں گی۔ اور ان کے ساتھ تم بھی مفت میں پھنسو گی۔ “ میں یہ سوچ کر ان کی بات ہنسی میں اڑا دیتی تھی کہ افسران اعلی ان دنوں ضیا ءالحق کے عتاب سے خا صے سہمے ہوئے ہیں۔ اور مجھے بھی ڈرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب کہ مجھے کسی بات سے ڈر ہی نہیں لگتا تھا۔ ہاں کوئی فکر تھی توبس یہ کہ مجھے دو مہینے سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مجھے انقلاب اور فیشن دونوں کا جوش تھا۔ آواز کے دفتر سے نکل کر لگے ہاتھوں ”نہ سہی وصل تو حسرت ہی سہی“ کے مصداق انگلش بوٹ ہاؤس کا چکر بھی کبھی کبھار لگا ہی لیا کرتی تھی۔ جو شاید اسی گلی کے کونے پر تھا۔

ایک دن فہمیدہ آپا اپنے کمرے سے نکلیں۔ میرے پاس آئیں اور باتیں کرنے لگیں۔

”پرچہ نکلنا روز بروز مشکل ہورہا ہے عشرت جانی۔ ۔ بہت سے مسائل ہیں۔ اشتہار ملنا بند ہوگئے ہیں۔ مضامین اور کہانیاں بھی نہیں مل رہی ہیں۔ “

میں نے کہا کیوں فہمیدہ باجی۔ ؟

بولیں ”تمہیں شاید پتہ نہیں میں آج کل بہت کرائسس میں ہوں۔ “

یہ سن کر ایک لمحے کو میں گم سم کھڑی رہ گئی۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ذہن نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مہینے کی تنخواہ بھی گئی۔ اور اس کے ساتھ ہی آواز کے دفتر پر قربان ہوجانے والی کم بخت سینڈل یاد آگئی۔ ۔ اس لمحے فہمیدہ ریاض کی آنکھوں میں عجیب حیرانی تھی۔

” ارے لڑکی میں نے کہا کہ میں کرائسس میں ہوں اور تم خاموش کھڑی میرا منہ دیکھ رہی ہو۔ ۔ لو اب مسکرا بھی رہی ہو۔ “

میں سٹپٹا گئی۔ ۔ وہ ہکا بکا میری صورت دیکھ رہی تھیں۔ پھر اپنی سچی اور میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ تھوڑی سی ناراضگی سے بولیں!

” عشرت جانی، جب کوئی کہتا ہے کہ میں کرائسس میں ہوں تو اس طرح تھوڑی کرتے ہیں۔ ارے بھئی کچھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ کچھ پوچھتے ہیں۔ “ انہوں نے ہاتھ جھٹک کر اپنے مخصوص غنائی انداز میں بس اتنا ہی کہا اور چلتی بنیں۔

اس بات کو لگ بھگ پینتیس چھتس برس ہوگئے ہوں گے لیکن وہ سب لمحے میری آنکھوں میں جیسے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ میں غور کرتی ہوں اور یاد کرنے کی کوشش کرتی ہوں کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا واقعہ یا بات یاد آجائے جب مجھے ان کی طرف سے کوئی شکایت یا ملال ہوا ہو۔ لیکن ان کی شفاف شخصیت آئینے کی طرح مجسم ہوکر آکھڑی ہوتی ہے ایک ایسا آئینہ جس میں کبھی کوئی بال نہیں آیا۔ میں نے ان کی پیشانی پر کبھی شکن نہیں دیکھی۔ ان کے لہجے میں کبھی تلخی نہیں آئی۔ ان کی بڑائی یہ ہے کہ وہ جتنی سچی، بیباک اور بہادر اپنی تحریروں میں ہیں اتنی ہی اپنی روز مرہ زندگی میں بھی۔

اس چھوٹے سے گھر میں جہاں بظاہر بے سر و سامانی کا ڈیرہ تھا۔ وہ گھر کیسے بے پایاں حسن سے مالا مال تھا۔ اپنے عہد کی سب سے بہادر اور عظیم عورت کی آواز، جس کے دکھ سکھ، جس کے آنسو تاریخ لکھ رہے تھے۔

ان دنوں میں عمر کی اس منزل میں تھی کہ تجربوں کی دھوپ نے ابھی کندن نہیں بنایا تھا۔ اصل زندگی تو اپنا گھر کرنے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ سو میں ان دکھوں سے ناواقف تھی جو ایک گھر دار عورت کا حصہ ہوتا ہے۔ اور یہاں تو بات اس سے بھی بہت آگے کی تھی۔ ایک ایسی عورت کا المیہ جو وقت سے آگے نکل گئی تھی۔ فہمیدہ ریاض جس نے اپنے عہد سے بہت آگے کی شاعری کی۔ فہمیدہ ریاض کے گھر کے راستے میں میری ایڑیاں زخمی ضرور ہوئی تھیں لیکن وہ ایک فیشن زدہ لڑکی کے مسائل تھے۔ بہت آگے چل کر پتہ چلا کہ فہمیدہ ریاض کے گھر کے راستے میں جو کانٹے بچھے تھے ان کا ادراک تو میرے کمتر شعور کی حد میں ہی نہیں تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3