جب فہمیدہ ریاض کی ”آواز“ پر چھاپہ پڑا


کئی نادان دوستوں کی تنبیہہ کے باوجود میں اس دن تک وہاں جاتی رہی جب تک کہ وہاں تالا پڑا نہ دیکھ لیا۔ بعد میں تصدیق ہوگئی کہ ”رسالہ آواز“ کے دفتر پر چھاپہ پڑا تھا۔ وہ لوگ سب کچھ اٹھا کر لے گئے۔ اچھا ہوا میں وہ رجسٹر اٹھا لائی تھی جس میں میں نے اپنے نوٹس لکھ رکھے تھے۔ یہاں بھی میری ذاتی خود غرضی عود کر آئی۔ اس رجسٹر میں پابلو نیرودا کی نظم کے ایک حصے کے لفظی ترجمے کا رف ڈرافٹ بھی تھا۔ مجھے اپنے اس دفتر کے اجڑنے کا افسوس ہوا۔ میں نے دل میں عہد کیا کہ جوں ہی دفتر دوبارہ کھلے گا میں رضاکارانہ طور پر وہاں کام کروں گی۔ لیکن جب یہ پتہ چلا کہ فہمیدہ جلا وطن ہوگئی ہیں۔ تو دل پر ایک چوٹ سی لگی۔

شروع دنوں کی بات ہے ایک بار ہوا یہ کہ رسالہ پریس میں جانے کے لئے تیار تھا۔ مگر ترجمے کا خانہ خالی تھا۔ جن صاحب نے ترجمے کا وعدہ کیا تھا مسودہ وقت پر نہیں پہنچا سکے یا سیاسی حالات کے تحت دامن بچا رہے تھے۔ فہمیدہ نے مجھ سے کہا عشرت جانی یہ لو پابلو نیرودا کی نظم ”“ the heights of macchu picchu کا ایک حصہ جلدی سے ترجمہ کردو۔ وقت بالکل نہیں ہے۔ میں نے کہا فہمیدہ باجی میری انگریزی اس قابل نہیں ہے۔ آپ مجھے کیا سمجھ رہی ہیں۔ وہ بولیں دیکھو مری بات سنو ترجمہ تو تمہیں ہی کرنا ہے۔ کوشش کرو گی تو کام کرنا آئے گا ناں۔ ۔ میں نے کہا میرا مطلب ہے کہ نثر کا ترجمہ ہو تو اور بات ہے یہ نظم ہے اور وہ بھی پابلو نیرودا کی۔ کچھ خدا کا خوف کریں فہمیدہ باجی۔ ! اچھا ایسا کیجئے کہ نظم مجھے دیجئے میں گھر پر اطمنان سے کر لوں گی۔

وہ اپنے مخصوص انداز میں ٹھٹھہ مار کر ہنسیں۔ بولیں نہیں پرچہ تو پریس میں جانے والاہے۔ اور یہاں میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں گھر پر کیسے کرو گی؟ میں نے بے دلی سے نظم پڑھی اور قطعی طور پر اعلان کردیا کہ میرے لئے اتنی جلدی ممکن نہیں ہے۔ وہ میرا جواب سن کراپنے مخصوص غنائی انداز میں گویا ہوئیں۔ ”دیکھو میری جان مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں، یہ ترجمہ تو تمہیں ہی کرنا ہوگا۔ اور ایسا ہے کہ جب تک تم ترجمہ نہیں کرتیں اس کمرے میں بند رہو۔

۔ یہ کہہ کر جھپ سے انہوں نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور باہر سے کنڈی لگا دی۔ باہر بی بی جان اور بچے ہنس رہے تھے اور میں۔ ۔ میں تھک کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ اب کیا کیا جائے۔ تھوڑی دیر باہر خاموشی رہی پھر آواز آئی“ عشرت جانی کوئی مدد چاہیے۔ ”تب مجھے ان کی آواز زہر لگ رہی تھی۔ میں نے سوچ کر جواب دیا، جی ڈکشنری چاہیے۔ امید تھی کہ اس بہانے دروازہ توکھلے گا۔ (شاید قید سے زیادہ قید ہونے کا احساس جان لیوا ہوتا ہے ) تو میری یہ ترکیب بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔

ان سفاک اور سنگ دل خاتون نے ڈکشنری دروازے کے نیچے سے سرکا دی جہاں دروازے کے نچلے حصے اور ماربل کے ننگے فرش کے درمیان ایک قالین بھرفاصلہ تھا۔ میں نے خود سے کہا، رسالہ آواز کی نائب مدیرہ عشرت آفرین صاحبہ آپ کوجان لینا چاہیے کہ آپ ایک ایسی خاتون کی ماتحتی میں کام کررہی ہیں جس کی زبان سے نکلا ہوا ہر حرف، حرف آخر ہوتا ہے۔ اپنے ارادوں میں اٹل، کام کی دھنی اور قلم کی مزدور خاتون نہ دیکھی ہو تو آج دیکھ لیجیے۔

میں نے سن رکھا تھا کہ دنیا کی کئی عظیم کتابیں قید خانوں میں ہی لکھی گئی ہیں۔ اس خیال سے دل کو تشفی ہوئی۔ ڈر تھا تو یہ کہ اگر ترجمہ نہ کرسکی تو کتنی شرمندگی ہوگی۔ فہمیدہ باجی سمجھیں گی بالکل جاہل ہے یہ۔ اب سوچتی ہوں تو ہنسی آتی ہے۔ میں تو آج بھی ویسی ہی کوری کی کوری ہوں، نری جاہل۔ تب کیسی ننھی سی انا تھی جس کے لئے میں اتنا دفاع کر رہی تھی۔ کاش ”آواز“ نکلتا رہتا۔ کاش میں ان کی ملازمت میں زندگی گزار دیتی۔ تو شاید اردو ادب کا دامن ایسے کتنے اور تراجم سے مالا مال ہوتا جو فہمیدہ ریاض کے ساتھ ایک شام کی مزدوری کا صلہ تھا۔ وہ تراجم جو آج بھی میرا افتخار ہیں۔

(علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن ہیوسٹن، جشنِ فہمیدہ ریاض یادگاری مجلہ 2016 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3