آنکھیں عالمی اردو کانفرنس کراچی میں چھوڑ آیا ہوں


مقامات و منازل کا حسن اس کے باسیوں سے ہوتا ہے۔ وہاں پر موجود نظاروں سے ہوتا ہے۔ ان مقامات سے جڑی یادوں سے ہوتا ہے۔ خزائیں، بہاریں، جلتی دھوپ، بلندیاں، سمندر کے کناروں کی اڑتی ریت یہ سب ، ہم سب کو کسی نہ کسی طرح پسند ہے۔

مجھے ہمیشہ سے کراچی اچھا نہیں لگتا تھا۔ کوئی مجھ سے پوچھتا کہ بھلا کیوں؟ میں جواب دیتا کہ کراچی میرے گھر سے بہت دور ہے۔ پھر میں کسی نہ کسی طرح کراچی پہنچ گیا۔ معاشی آہیں اور اقتصادی کراہیں کراچی لے گئیں۔ پھر کراچی تھا اور ہم تھے۔ کراچی کے بارے میں سنا تھا کہ ہر کسی کو اپنے آپ میں چھپا لیتا ہے۔ رہنے کے لیے ٹھکانا اور بہانہ مہیا کرتا ہے۔ شاید ہر وہ شہر ہی ایسا ہوتا ہے جہاں مزدور اور اہل قلم زیادہ بستے ہوں۔ دونوں کی فطرت میں اس جگہ کا تقدس اور مان زیادہ بھرا ہوتا ہے۔

کراچی میں منعقدہ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس اپنے عروج پر ہے۔ پوری دنیا سے اہل قلم یہاں موجود ہیں۔ اپنی تمام جہتوں، محبتوں، رونقوں اور گہماگہمی کے ساتھ وہ پانچ عالمی اردو کانفرنس کراچی میری یادوں کا بہترین حصہ ہیں جن میں میری مسلسل شمولیت رہی ہے۔ کراچی آرٹس کونسل کے زیر انتظام و اہتمام اس کانفرنس میں دنیا بھر سے مندوبین تشریف لاتے ہیں۔ اپنے اپنے شہروں کی سوغاتیں اہل کراچی کی جھولی میں ڈال کر مسکراتے چہروں اپنی راہ لیتے ہیں ۔کوئی شاعری کے رنگ بکھیرے توکوئی افسانوں میں اپنی بات کہہ جائے۔ کسی نے اپنے مقالوں میں زمانے کے پھپھولوں کو چھیڑا۔ اور کوئی اس پروگرام کی چاشنیوں کو بہم مہیا کرنے کے لیے پس سکرین اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

اس رنگا رنگ جشن میں اردو کے حوالے سے بہت اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ہر کونے میں بسے اور اردو سے جڑے لوگوں کی محفل ہے۔ کشمیر کی وادیوں سے لیکر، خیبر کی سختیوں اور بلوچستان کی سرحدوں تک پھیلے لوگ شامل ہوتے ہیں۔علاقائی زبانوں اور اردو کا تعلق بیان کیا جاتا ہے۔ متعدد نئے موضوعات ہوتے ہیں جیسے اس مرتبہ اردو ان سائبر سپیس جیسے موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔

ابھی کانفرنس جاری ہے۔ لائیو کوریج کے ذریعے میں کچھ سیشن سن بھی لیتا ہوں مگر مجھے آرٹس کونسل کے عقبی دروازے کے پاس کسی سے باتیں کرتے ہوئے رضا علی عابدی صاحب نظر نہیں آتے۔ بھاگتے دوڑتے احمد شاہ پر نگاہ نہیں پڑتی اور کسی کونے میں کرسی پر براجمان یا کیمروں کی روشنیوں میں گھرے مستنصر حسین تارڑ صاحب کو تاڑنا بہت یاد آتا ہے۔ ہر سیشن کے بعد پروفیسر سحر انصاری صاحب سے ملنا اور ان کا اسی پیار سے تھپکی دینا یا گال تھپتھپانا یاد آتا ہے۔

آرٹس کونسل کے تمام منتظمین، کمیٹیوں کے انچارج گزرتے کوئی بات کرتے، ہاتھ ہلاتے یا اگلے سیشن کی بابت کچھ کہتے تو بہت بھلا لگتا۔ انہیں معلوم تھا کہ جتنا وہ لوگ اس کانفرنس کو منعقد کرنے کے لیے محنت کرتے ہیں اتنی ہی لگن سے میں اس کے تمام سیشن میں شامل ہوتا ہوں۔ اسجد بخاری، کاشف گرامی، سہیل بھائی، آئی ٹی کے انچارج شاہد، نفیس غوری، آغا شیرازی اور نعمان سب یاد آتے ہیں۔ نفیس غوری جب کھلتے چہرے اور مسکراہٹ کے ساتھ گرم چائے کا کپ کسی کونے میں بیٹھے تھماتا تو ایسے لگتا جیسے نفیس میری تھکاوٹ سے آگاہ ہو گیا تھا۔

رضا علی عابدی صاحب سےسارا سال فیس بک پر رابطہ رہتا۔ ایک سال بعد ان سے ملاقات ہوتی۔ میری کوشش ہوتی کہ ان کو ملنے والی ادباء کی کتب یا دستی سامان تھام لوں۔ شاید چند مزید لمحے ان کا ساتھ نصیب ہو۔ امجد سلام امجد اور انور مسعود صاحب سے پہلی بار گفتگو کا موقع بھی اسی کانفرنس میں ملا۔ وہ باقاعدگی سے تشریف لاتے ہیں۔

دیار غیر میں بسے اپنے محترم دوست ارشد فاروق صاحب فن لینڈ سےتشریف لاتے تو وہاں کی بہت سی یادیں، کتب اور باتیں سمیٹ کر لاتے۔ نصر ملک صاحب ڈنمارک سے لطیفے امپورٹ کر کے لاتے۔ میرے استاد محترم ڈاکٹر انعام الحق جاوید ملتے تو گرمجوشی اور محبت کا نہ بھلایا جانے والا احساس ہمیشہ ساتھ رہتا۔ ناصر کاظمی صاحب کے صاحبزادے باصر کاظمی صاحب اور معروف ادیب یشب تمنا جب برطانیہ سے تشریف لاتے تو خوب ملاقات رہتی۔ ان سے ملاقات کا ذریعہ بھی یہی جگہ تھی۔ آڈیٹوریم سے نکلتے ہی بائیں جانب آپا کشور ناہید، حمید شاہد اور ڈنمارک میں بسی ہماری آپا صدف مرزا براجمان ہوتے۔ ان کے گرد قارئین اور اہل ادب کا ایک جم غفیر ہوتا۔ ان کے پاس بیٹھنا، انہیں دیکھنا اور سننا یاد آتا ہے۔

مجھے یوسفی صاحب اور ضیا محی الدین صاحب کے بارے یا مستنصر حسین تارڑ صاحب کے کسی سیشن کا خوب انتظار رہتا۔ یوسفی صاحب کو جی بھر کر وہیں دیکھا۔ انتظار حسین صاحب اور نسرین بھٹی، امجد صابری، احسن سلیم صاحب کے بارے دعائے مغفرت بھی انہی کانفرنسز میں بیٹھ کر کی۔ معروف ستار نواز استاد رئیس خان جیسے لیجنڈ کو بھی یہیں پر کئ سالوں دھنیں بکھیرتے سنا اور وہ بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔ احسن سلیم صاحب مرحوم کو بھولنا بھی ممکن نہیں۔ کراچی کا ادبی سرمایہ اور نثری نظم کا ایک منفرد حوالہ۔ ادبی مجلہ اجرا کے مدیر، یاروں کو ملانے اور جوڑنے والے احسن سلیم۔ نویں عالمی اردو کانفرنس میں وہ ہمارے ہمراہ نہ تھے۔

اقبال خورشید، رفیع اللہ میاں، خرم سہیل، شبیر نازش، خالقداد امید، مجید رحمانی، شاہدہ عروج، نسرین غوری، غزالہ پرویز، تنویر رؤف صاحبہ، سبین حشمت قاضی، آصف رانا، اعظم معراج، مریم تسلیم کیانی (مایا مریم) بہت محترم جاذب قریشی ، شاہین نیازی، ابصار احمد، سلیم صدیقی، صفدر صدیق رازی، حنیف عابد، انیس احمد مرچنٹ، عنبرین حسیب عنبر، ڈاکٹر منیر رئیسانی، نور الہدی’ شاہ صاحب، عثمان جامعی، زیب ازکار جیسے قابل ذکر اہل ادب سے جہاں “اجرا تخلیقی مکالمہ ” یا الگ سے ادبی تعلق تھا وہیں اس ادبی کانفرس پر لازمی ملاقات ہوتی۔ کتب کے اسٹال، آڈیٹوریم ، مشاعرے کے پنڈال یا کسی کونے سجی گفتگو میں بیٹھک ہوتی۔ مجھے لگتا ہے میں اپنی آنکھوں کو موند کر یہ لمحے دیکھنا چاہوں تو میرے لئے بہت آسان ہے۔ یہ تمام چہرے اردو ادب کے شاہکار اور تارے ہیں۔ یہ میری آنکھوں میں بسے ہوئےہیں۔ دل میں رہتے ہیں۔ اردو ادب کا مستقبل ہیں۔

میں لکھتا جاؤں تو شاید یہ یادیں ختم ہی ناں ہوں۔ ان کو سمیٹنا اور بھلانا بہت مشکل ہے۔ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس سے دور بیٹھا ہوں مگر ہندوستان ، برطانیہ ، سکینڈے نیویا، ترکی، مصر، چین، امریکہ اور ایران سے تشریف لائے اردو زباں کے محبان اور ورثاء کی کوششوں کو داد دینا ہمارا فرض ہے۔

میں نے آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ صاحب کو شکوہ کرتے سنا کہ اردو کے درخشاں ستارے چلے گئے ہیں۔ عبداللہ حسین، انتظار حسین، مشتاق احمد یوسفی، نسرین بھٹی، احسن سلیم، فہمیدہ ریاض سب چلے گئے۔ ایک ہی عہد کے لوگ بہت جلد رخصت ہو گئے۔ بلاشبہ ان ستاروں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ یہ واپس نہیں آ سکتے مگر ان کا لکھا ادب نہیں مٹ سکتا۔ وہ بہت قیمتی سرمایہ تھے۔ ہمارے پاس اسد محمد خاں، پیرزادہ قاسم، افضال سید، پروفیسر فتح محمد ملک، حسینہ معین، افتخار عارف اور ان کے علاوہ لاتعداد سینئر اور نوجوان نسل کے نمائندہ شعراء و نثر نگار ہیں۔ ان سب کو نمائندگی دیں۔ لفظ کو کوئی زوال نہیں۔ آسمان پر نظر دوڑائیں تو بہت سے چمکتے ستارے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی ستارہ مدہم ہو تو اس کی جگہ دوسرا چمکنا شروع کر دیتاہے۔ وہ اپنی روشنی ساتھی ستارے کو سونپ جاتا ہے۔ ساتھی ستارہ اسی آب و تاب سے چمکنا شروع کر دیتا ہے۔ اس تبدیلی کے دیکھنے کو آنکھیں چاہیں۔ اردو زبان وادب کے مستقبل کےحوالے سے دیکھنے کے لیے بھی آنکھیں درکار ہیں۔ کراچی مجھے اس لئے اچھا نہیں لگتا تھا کہ یہ میرے گھر سے دور ہے۔ اب کراچی مجھے اس لئے اچھا لگتا ہے کہ یہ میرے دل کے قریب ہے۔ اور ہاں میں اپنی آنکھیں تو عالمی اردو کانفرنس کراچی میں چھوڑ آیا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).