چینی قونصل خانے پر حملے میں ہلاک ہونے والے کون تھے؟


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی خبروں کے فوراً بعد خاندان کے لوگوں میں یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں بھائی اور بھتیجا اس کی زد میں نہ آئے ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ خدشہ کچھ دیر بعد اس حقیقت میں بدل گیا جب ایک رشتہ دار نے بتایا کہ دونوں کی لاشیں ہسپتال میں پڑی ہیں۔

یہ کہنا تھا اس حملے میں مارے جانے والے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے تاجر نیاز محمد اچکزئی کے بھائی حبیب الرحمان کا جوخاندان کے ساتھ پیش آنے والے ناگہانی واقعے پر غم سے نڈھال ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا بھائی نیاز محمد تاجر تھے وہ تجارت کی غرض سے چین اور عرب امارات سمیت دیگر ممالک جاتے رہتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ بھائی پہلے چھ سے سات مرتبہ جبکہ ان کے ساتھ قونصل خانہ حملے میں مارا جانے والا ان کا بیٹا محمد ظاہر شاہ تین مرتبہ چین گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ بھائی نے اپنے بیٹے کو چین سمیت دیگر ممالک لے جانے کا سلسلہ اس لیے شروع کیا تھا کہ ان کی عمر زیادہ ہے اس لیے بیٹا ان کا کاروبار سنبھالے ۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں تجارتی معاملات کے سلسلے میں ایک مرتبہ پھر چین جانا چاہتے تھے۔ ویزے کے لیے چینی قونصل خانے نے ان کو جمعے کو بلایا تھا۔

حبیب الرحمان نے بتایا کہ جب چینی قونصل خانے پر حملے کی خبریں ٹی وی چینلوں پر چلنا شروع ہوئیں تو ان سمیت خاندان کے جن افراد کو حملے کی خبر ملی تو وہ سب تشویش میں مبتلا ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ خاندان کے تمام لوگ اس خدشے سے دوچار ہوئے کہ کہیں بھائی اور بھتیجے کے ساتھ برا واقع پیش نہ آیا ہو۔’یہ خدشہ اس وقت زیادہ ہوگیا جب ان کے موبائل فونز پر کال کرنے سے بھائی کا نمبر بند جا رہا تھا۔ بھتیجے کے نمبر پر کال تو جارہی تھی لیکن اٹینڈ نہیں ہورہی تھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس پر ہم نے کراچی میں ایک رشتہ دار کو فون کیا کہ معلومات حاصل کرے۔ ‘ہمارا خدشہ اس وقت حقیقت میں بدل گیا جب ہسپتال جانے والے رشتہ دار نے یہ خبر دی کہ دونوں کی لاشیں ہسپتال میں پڑی ہیں’۔

حبیب الر حمان اچکزئی نے بتایا کہ حاجی نیاز محمد نے سوگواران میں تین بیٹے اور سات بیٹیاں جبکہ بھتیجے ظاہر شاہ نے سوگواران میں دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔

حبیب الرحمان اور ان کے خاندان کے لوگ کئی حوالے سے سرکاری حکام سے نالاں دکھائی دیئے۔ حبیب الرحمان نے بتایا کہ’نہ سندھ حکومت کی جانب سے ان سے کوئی تعاون کیا گیا اورنہ بلوچستان حکومت کی جانب سے۔ ہم نے خود گاڑی کرکے اپنی لاشوں کو کوئٹہ پہنچایا ‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس حملے میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ ادا کی گئی لیکن میرے بھائی اور بھتیجے کی نماز جنازہ کراچی میں ادا نہیں کی گئی۔‘

انہوں نے استفسار کیا کہ ”کیا ہمارا یہ حق نہیں بنتا تھا کہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ مارے جانے والے ہمارے رشتہ داروں کی بھی نماز جنازہ کراچی میں ادا کی جاتی‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp