پولیس کے مسائل اور چند تجاویز


پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے کئی ادارے موجود ہیں جن میں خفیہ ادارے اور فوج بھی شامل ہیں مگر پولیس، جو کہ ریاست کی سب سے بڑی نمائندہ ہے سب سے زیادہ ریاستی عدم توجہی کا شکار ہے۔ پولیس کے جوانوں کی جرات مند یا ان کے باہمت ہونے میں کوئی دوسری رائے نہیں مگر، حکمت عملی کے ناقص ہونے، محدود استعداد کار اور وسائل کی کمی کی طرف ضرور ذہن جاتا ہے۔

پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے صف اول کے سپاہی ہیں۔ قانون کا نفاذ ہو یا امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنا ہو، جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی ہو یا دہشت گردی کے خلاف آپریشن، ہر محاذ پر مصروف عمل رہنے والے ان اداروں کے جوان سینہ سپر ہو کر شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ جب کبھی یہ خبر اخبارات میں پڑھنے کو ملتی ہے کہ پولیس کی جرائم پیشہ عناصر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے دوران پولیس کے جوان شہید جرائم پیشہ اور دہشت گرد فرار، تو ایسی خبریں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

پولیس جرائم پیشہ گروہ اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ تربیت اورنقائص سے مبرا حکمت عملی کی بدولت زیادہ موثر اورکامیاب کارروائیاں کر سکتی ہے۔

گزشتہ دس سالوں کے دوران پولیس کے پانچ ہزار جوان (ا وسطاً 500 جوان ہر سال) دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں۔ پولیس کے محکمے میں استعداد کار کی کمی، سیاسی مداخلت، وسائل کا نہ ہونا اور حکومتی سرپرستی کا فقدان وہ عوامل ہیں جن کے باعث پولیس کی کارکردگی بہت زیادہ موثر نہیں۔ پولیس کے ادارے کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آج تک پولیس کے ادارے پر بھرپور توجہ نہیں دی گئی۔

اس محکمہ کو ہر حکومت نے تجربات کے لیے اپنی اپنی تجربہ گاہ میں ٹیسٹ سے گزارا ہے۔ گو پولیس نظام میں اصلاحات ضروری ہیں لیکن زیادہ تر حکومتیں نمائشی تبدیلیاں ہی کرتی آئی ہیں۔ ابھی تجربات کی بھٹی چل رہی ہے نت نئے تجربےکیے جا رہے ہیں مگر یہ بات بھی اہم ہے کہ اعلیٰ تربیت اور ٹھوس حکمت عملی کے فقدان کا اعتراف کرنے میں پولیس عموماً ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے۔

خامیاں اور کمزوریاں اگر نظرانداز کی جائیں تو پھرنہ تو اداروں میں مضبوطی آ ئے گی اور نہ مہارت بڑھے گی۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پولیس کو پوری طرح مسلح نہیں کیا گیا جن عناصر کے خلاف وہ نبرد آزما ہے وہ ان سے زیادہ جدید اور بہتر اسلحے سے لیس ہیں۔ پولیس کو بے جا سیاسی مداخلت کے باعث سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو اس ادارے کی بُری کارکردگی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ جہاں پاکستانی پولیس کو ملک بھر میں تنقید کا سامنا ہے اس میں کافی عمل دخل سیاسی مداخلت کا بھی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے آزادانہ طور پر کام نہیں کر سکتے۔ تحریک انصاف حکومت بھی پولیس پر روایتی سیاسی اثر و رسوخ کے خاتمے کے لئے غیر آمادہ دکھائی دیتی ہے اور یہ پنجاب پولیس ریفارمز کمیشن سربراہ ناصر درانی کے اچانک استعفے کے بعد واضح ہوگیا تھا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگرچہ درانی نے اپنے استعفے کے لئے طبی وجہ بیان کی ہیں لیکن ان کے استعفے کے پیچھے ان کا تجویز کردہ پولیس آرڈر تحریک انصاف حکومت سے اختلافات کی وجہ بنا ہے۔

ناصر درانی کی سربراہی میں پولیس ریفارمز کمیٹی ایک منصوبے پر کام کررہی تھی کہ جس کے تحت ایک وزیرا علی ایک پولیس افسر کے ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے لئے اپنے عہدے کا اثر ورسوخ استعمال نہیں کرسکتا۔ جاری قانون کے تحت گریڈ 19 اور اس سے اوپر کے افسران کے ٹرانسفر کے لئے وزیر اعلی منظوری دیتا ہے، تاہم درانی کی سربراہی میں کمیٹی وزیرا علی کے کردار کا خاتمہ چاہتی تھی اور کسی بھی پولیس افسر کے ٹرانسفر کے لئے مکمل اختیارات چاہتی تھی۔

یہ وزیر اعلی کے اختیارات ختم کرنے کے مترادف تھا اور یہی درانی اور بزدار حکومت کے درمیان رسہ کشی کے پیچھے وجہ بنی۔ مزید کہا گیا کہ اس سے متعلق سمری تیار کرلی گئی تھی اور پنجاب سے کچھ وزرا نے اس پر دستخط بھی کردیے تھے۔ دوسری جانب یہ آئیڈیا پنجاب کابینہ اور تحریک انصاف کے منتخب ایم این ایز اور ایم پی ایز کو پسند نہیں آیا جو کہ لاہور میں ہونے و الے کابینہ اجلاس میں تھے، انہوں نے کمیٹی کے کام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

پولیس کے لیے قانون سازی بھی ایک مسئلہ رہی ہے برطانوی دور میں انگریزوں نے جو 1861 کا پولیس ایکٹ نافذ کیا تھا آج تک وہی ایکٹ کسی قدر کمی بیشی کے ساتھ نافذالعمل ہے۔ اس قانون میں تبدیلی کرتے ہوئے پولیس آرڈیننس 2002 کے نام سے دوبارہ نافذ کیا گیا، جسے پولیس میں اصلاحات کا نیا قانون کہا گیا مگر 2002 اور اس پہلے یا اس کے بعد اس میں کی گئی تبدیلیوں سے اس کی اصل روح بھی مجروح ہو چکی ہے۔ اس عرصہ کے دوران کی گئی اصلاحات بھی قابل عمل نہیں۔ وسائل کی کمی کی کا رونا بھی رویا جاتا ہے جو ایک حقیقت ہے۔

پولیس میں تنخواہ بھی کم ہے جس کی وجہ سے ”رشوت ستانی“ میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اور مسئلہ جو پولیس کی کارکرگی کو بہتر نہیں ہونے دیتا وہ ہے ڈیوٹی ٹائم۔ دنیا بھر میں کسی ملک میں کسی شعبہ میں ڈیوٹی کا دورانیہ 24 گھنٹے نہیں ہے مگر حیران کن طور پر پاکستان میں پولیس کی ڈیوٹی 24 گھنٹے کی ہے جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی ہے۔ کئی بار شفٹ سسٹم کے نفاذ کا عندیہ دیا گیا ہے مگر تاحال ایسا نہیں ہوا پولیس اپنا اصل کام کرنے کے بجائے اہم شخصیات کی حفاظت کے لئے اور بیرونی ممالک سے آئے VIP اشخاص، سیاستدانوں اور اعلی افسران کے محافظ کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہے، اس سے پولیس کے ادارے اور جوانوں پر بہت برا پڑا ہے اور پولیس اپنے اصل مقصد سے ہٹ گئی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کے محکمے کو مزید نمائشی تجربات سے بچایا جائے اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے پولیس کو وسائل، تربیت، ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ فراہم کیا جائے اور اصلاحات کا عمل شروع کیا جائے۔ ڈیوٹی ٹائم 24 گھنٹے کی بجائے شفٹ کے نظام کے ذریعے کم کیا جائے، سیاسی مداخت ختم کی جائے، تحقیق و تفتیش کے شعبہ میں روایتی انداز کی بجائے جدید طریق ہائے کار کو اپنایا جائے، اہلکاران اور افسران کو جسمانی کے ساتھ نفسیاتی تربیت بھی مہیا کی جائے، تنخواہوں میں معقول اضافہ کیاجائے اور سب سے اہم یہ کہ پولیس ایکٹ 2002 کو اس کی اصل حالت میں نافذ کیا جائے۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya