لوگ سمجھتے ہیں آساں ہے ترجمان ہونا


گو کہ سیاست ہمارا خاندانی کاروبار ہے مگر اسے بھی وسعت دینے کی لیے اور بقول مرشد، ”کمپنی کی مشہوری“ کے لئے نوکری کرنا ضروری ہے۔ آج میرے سیاسی کیریئر کا ایک اہم دن تھا، میری نئی پارٹی کو ترجمان درکار ہیں اور اس کے لیے الیکشن کے بعد اشتہار دے کر درخواستیں موصول کی گئیں۔ میں نے بھی اس نوکری کے لئے درخواست جمع کرائی اور آج میرا انٹرویو تھا۔

ترجمان بننے کے لئے کئی مہارتیں درکار ہوتی ہیں، مثال کے طور پر بغیر سوچے بولنا، وہ بھی لگاتار، کوئی آسان بات ہے؟ جھوٹ بول کر اس پر قائم رہنا اور اس کا دفاع بھی کرنا، بڑی کشت سے اس میں مہارت حاصل ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس کشت کو ڈھٹائی کا نام دیتے ہیں جبکہ مرشد نے بتایا تھا کہ یہ مستقل مزاجی ہوتی ہے۔ ترجمان کا انتخاب میرٹ پر ہونا ہے اور چونکہ ہماری پارٹی عین جمہوری ہے سو حتمی منظوری پارٹی قائد اور ان کے بیٹے ہی دیں گے۔

ترجمانوں کے لیے دیا گیا اشتہار نہایت جامع تھا۔ اشتہار ایسا ہونا چاہیے کہ پڑھنے والے کو فوراً معلوم ہو جائے کہ وہ اس جاب کے لیے موزوں ترین اُمیدوار ہو سکتا ہے۔ میں یاد دہانی کے لیے وہ اشتہار یہاں نقل کر رہا ہوں تاکہ آئندہ کبہی ضرورت پڑے تو کام میں لایا جا سکے۔ اشتہار کچھ یوں تھا، ”ہمارے معزز قائد کو ملک بھر سے ’شیم۔ لیس سٹیل‘ کے بنے چمچوں کے نمونے درکار ہیں“ گو کہ پہلی نظر میں یہ کوئی چمچوں کا ہی اشتہار معلوم ہوتا ہے مگر ایسا نہیں، یہ ترجمان کے لیے ہی ہے۔

میں نے اشتہار کے اگلے دن ہی درخواست جمع کرا دی اور درخواست میں وہ جملہ خصوصیات جو کہ اس کام کے لیے درکار ہو سکتی ہیں سب لکھ ماریں۔ وہ بھی مارکر سے، مثال کے طور پر، جھوٹ کو جھوٹ نہ سمجھنا، ایک فون کال پر بیان بدلنا اور پھر اس کا دفاع کرنے کے لیے بے تکی دلیلیں ڈھونڈنا، پارٹی کی ہر غلطی کا دفاع کرنا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کوئی جواب نہ بن پڑنے کی صورت میں مخالف کے گھر کے حالات بتا کر اسے پسپا کرنے جیسی نایاب خصوصیات۔ اسی بنیاد پر مجھے شارٹ لسٹ کر کے انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔

انٹرویو میں مجھے سے میرا تعارف اور سیاسی بیک گراونڈ کا پوچھا گیا ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا پر وہ وڈیوز جو میری پرانی پارٹی کی ترجمانی کے دوران وائرل ہوئیں تھیں، خواتین کی موجودگی کے باعث ہیڈ فون لگا کر سنی گئیں اور اس کے اضافی نمبر دیے گئے۔ انٹرویو کے دوران مجھے اپنی ایک کمزوری کا علم ہوا جس پر مجھے کام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ مجھے صرف چند درجن ہی گالیاں آتی ہیں جبکہ سامنے والے کو ہزاروں ازبر تھیں، مختلف زبانوں اور لہجوں کے ساتھ بلکہ انٹرویو کے دوران بھی اس نے میری کچھ گالیوں کا تلفظ اور لہجہ ٹھیک کرایا اور ساتھ یہ فن بھی سکھایا کہ کس طرح گالی کو ”سلپ آف ٹنگ“ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ سچ بتاوں تو میں تو قائل ہو گیا اس کی قابلیت کا۔

ترجمان کی ملازمت کے لیے ایک کڑی شرط یہ تھی کہ اُمیدوار کا کسی بھی ”ضمیر“ نامی رشتہ دار سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ نوکری سے پہلے اس کے ساتھ قطع تعلقی کا سرٹیفیکیٹ جمع کرانا لازم ٹھہرایا گیا تھا۔ میری خوش قسمتی یہ رہی کہ میں جس ضمیر کو جانتا تھا اسے فوت ہوئے بائیس سال ہو گئے جبکہ میرا سیاسی کیریئر ساڑھے بائیس سالوں پر محیط ہے۔ اس کے مرنے کی خبر مجھے کافی عرصے بعد ملی سو میں اس کے آخری رسومات میں بھی شریک نہ ہو سکا۔

بہرحال میرا انٹرویو خاصا اچھا ہوگیا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ یہ نوکری مجھے ہی ملے گی، ویسے تو میں نے آج ہی پارٹی فنڈ میں دس لاکھ روپے اور ایک گاڑی دی ہے مگر پھر بھی آپ دعا کیجئے۔ یہ نوکری مجھے مل گئی تو اپنے سب دوستوں کی ٹریٹ پکی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).