قرض اتارو ملک سنوارو: آئیے ڈیم بناتے ہیں


جمرات کی رات ہمارے بچپن میں سب سے بد مزا رات ہوتی۔ ایک تو ٹی چینل صرف دو اوپر سے جب تک جمعرات ویک اینڈ رہا ہم نیلام گھر دیکھنے پہ مجبور پھر ابھی ہم اسکول میں ہی تھے کہ نواز شریف دوسری بار بھی وزیر اعظم بنے اور جمعرات کی جگہ ہفتہ (سنیچر ) ویک اینڈ بنا لیکن ٹی وی چینل وہی دو۔ ایک رات ہم نہایت بیزاری کے عالم میں ٹی وی دیکھ رہے تھے تو جیسے ہی پروگرام کا آغاز ہوا طارق عزیز نے اپنے مخصوص انداز میں وہی رائن ادا کیں جو آج بھی کرتے ہیں۔

”دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے، اس نے ووٹ مانگے آپ نے ووٹ دیے، اس نے نوٹ مانگے آپ نے نوٹ دیے“، یہ کچھ عجیب سا تھا بالکل نیا۔ آج تک ہم نے ایسا دیکھا نہ تھا کہ پرائم ٹائم پہ بھی حکومت کا اشتہار آ سکتا ہے۔ یوں تو صبح شام ہم اشتہار دیکھنے کے عادی تھے۔ ”قرض اتارو ملک سنوارو پاک وطن کے پیارو سینا چیرو دل نکالو“۔

اس واقعے کہ کچھ ہی عرصے بعد شاید مہینے بھر بعد ہی جب ہم نے پرائم ٹائم کی نشریات دیکھنے کی خاطر ٹی وی چلایا تو معلوم ہوا بندروں پہ ڈاکومنٹری چل رہی ہے۔ یہ وہی دن تھا جب نواز شریف صاحب کا دوسرا دور حکومت بھی وقت س پہلے ختم ہوا۔

بڑی باتیں بنیں پیسے قرض حسنہ تھے کھا گئے اور نا جانے کیا کیا، وقت گزرتا گیا، محترم نواز شریف تیسری مرتبہ اقتدار میں آ گئے دسمبر دو ہزار سولہ کو یہ خبر نشر ہوئی۔ :
دیر سے ہی سہی مگر خیال تو آیا حکومت نے 19 سال بعد قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم کے متاثرین کو رقم واپس دینے کا اعلان کردیا۔

سیکریٹری خزانہ کے مطابق قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم کے ذریعے 47 کروڑ روپے جمع ہوئے اور 19 سال میں صرف ایک لاکھ روپے واپس دیے گئے۔
حکومت نے اسکیم کے متاثرین کو رقوم کی ادائیگی کرنے کا اعلان کردیا، قرض حسنہ دینے والوں کی فہرستیں تیار کی جارہی ہیں۔

سیکریٹری خزانہ کا کہنا ہے کہ متاثرین کو رقوم کی واپسی کے سلسلے میں تمام بینکوں کو سرکلر بھی جاری کیا جائے گا، جن لوگوں نے کار خیر میں حصہ لیا انہیں رقوم واپس کی جائیں گی۔

یوں عوام کی ڈوبی ہوئی رقم واپس موصول ہوئی۔

دو ہزار اٹھارہ میں محترم چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب جو اپنے اصلی کام کرنے کے علاؤہ سب کچھ ہی کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں انہوں نے ڈیم فنڈ کا ترانہ پڑھا اور پوری قوم سے ڈیم کے لیے زکوٰۃ صدقات اور عطیات جمع کرنے لگے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اوور سیز پاکستانیوں نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے۔ اور ہمیں ان سے بہت توقعات ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے جب گھر کا ایک فرد بیرون ملک ہوتا ہے تو شادی کی تقریب میں سب سے بھاری تحفے کے لیے سارا خاندان اسی سے توقعات جوڑتا ہے ویسے ہی چیف جسٹس صاحب بھی امیر پاکستانیوں سے امداد کے لیے مع اہل و عیال روانہ ہوئے۔

ہمارے نئے نومولود وزیراعظم بھی ہر تھوڑی دیر بعد کٹورہ لیے نمودار ہوتے ہیں، لیکن اس بار قرض حسنہ نہیں چندہ ہے۔ پچھلی بار تو واپسی کی امید بھی تھی، اس بار تو واپسی کا کوئی امکان بھی نہیں۔ نا ہی چندے سے ڈیم بنتے نظر آ رہے ہیں۔

تو میرے عزیز ہم وطنوں!

آخر نیا کیا ہے؟
قرض اتارو ملک سنوارو سے ڈیم فنڈ میں دل کھول کر عطیہ دیجئے کا نعرہ؟
محترم عمران اسماعیل کا تبدیلی والا ڈانس؟
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا اعلان کہ محکمہ ریلوے کی جانب سے ڈیم فنڈ میں دس کروڑ روپے سالانہ دیے جائیں گے؟

سب سے الگ اور سب سے آگے چیف جسٹس کا کہنا ”کہ وہ سب اپنا وقت گزار چکے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیم پر پہرہ دیں گے“
یا وزیر اعظم پاکستان محترم عمران خان کا یہ بیان کہ ”پی ٹی وی“ بھی آزاد ہے اب وہ اپنے دل کی باتیں کر سکتا ہے میڈیا آزاد ہے؟

آ خر میں ایک چھوٹی سی کہانی۔

پرانے زمانے کی بات ہے۔ ایک شہری لڑکی کی شادی گوالوں کے گھر ہوئی۔ لڑکی کو بھینسوں کی بدبو سے سے بہت پریشان ہوتی۔ سارا دن وہ پریشان رہا کرتی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد لڑکی نے شکوہ کرنا چھوڑ دیا۔ اس کے میکے سے کسی نے دریافت کیا، کیا بات ہے اب تم بدبو کا شکوہ نہیں کرتی۔ تو لڑکی نے کہا!
اب بھینسوں نے بدبو دینا ہی چھوڑ دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).