”مذہب سے متعلق ملانہ رویے“ کے جواب میں


جناب ڈاکٹر مجاہد مرزا صاحب کا ایک کالم ”مذہب سے متعلق ملانہ رویے“ ”ہم سب“ فورم پر شائع ہو اہے۔ اس مضمون میں جناب ڈاکٹر صاحب مذہب میں ملائیت کی بے جا دخل اندازی پر نوحہ کناں ہیں۔ بے شک ”نیم حکیم خطرہ جان او رنیم ملاں خطرہ ایمان“ ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس نیم ملائیت اور اب ڈیڑھ ملائیت نے جتنا نقصان اسلام کو پہنچایا ہے اتنا کسی اور چیز نے نہیں پہنچایا۔ مذہبی تعلیمات کو من چاہی تشریحات اور تطبیقات کی روشنی میں دیکھنے والا چاہے مولوی ہو، مربی ہو، ملاں یا پنڈت ہو، داڑھی والا ہو یا بغیر داڑھی کے، قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔

قرآن مجید نے تو حق سچ، صداقت اور صبر کے ساتھ تلقین عمل کی نصیحت فرمائی ہے۔ پھر ”تواصوا بالصبر و تواصوا بالمرحمۃ“ ( سورہ بلد 17) کے الفاظ استعمال کرکے بتا دیا کہ تلقین عمل کرتے ہوئے صبر اور مرحمت کا دامن نہیں چھوڑنا۔ یقیناًاس حکم کی حدود سے باہر قدم رکھ کر تلقین عمل کرنے والاخدائی فوجدار بننے کی کوشش تو کرتا ہے لیکن تبدیلی پید انہیں کر سکتا۔ ایسے لٹھ برداروں سے روزانہ ہمیں واسطہ پڑتا ہے۔

تا ہم مکرم ڈاکٹر صاحب ملائیت کے خلاف آواز اٹھاتے اٹھاتے دین کی اساس پر حملہ کر بیٹھے ہیں۔ اور ایسا بیان دے گئے ہیں جو کسی صورت اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں۔ پہلا بیان نماز باجماعت کے متعلق ہے اور دوسرا مرتد کی سزا کے متعلق۔

موصوف لکھتے ہیں۔ ”عبادت کے لئے اجتماع کی ہمیشہ تب ضرورت رہی جب لوگوں کو باہم رکھنا مقصود تھا۔ ۔ ایسا شروع کے سالوں میں ہو سکتا ہے جن کی تعداد دس بیس یا پچاس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ باجماعت نماز پڑھنا ضروری ہے فرض نہیں۔ “

مکرم ڈاکٹر صاحب کا موقف واضح طو رپر اسلامی تعلیمات کے منافی اور ان سے ٹکرانے والا ہے۔ قرآن مجید کی بیسیوں آیات، سینکڑوں احادیث، سنت رسول ﷺ، سنت صحابہ، امت میں پندرہ صدیوں سے رائج نماز باجماعت ڈاکٹر صاحب کے موقف خلاف بطور گواہ کھڑی ہے۔

یہ منطق بھی عجیب ہے کہ اجتماعیت کی ضرورت صرف شروع کے پندرہ بیس یاپچاس سالوں کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ گویا دوسروں لفظوں میں ان ابتدائی سالوں کے بعد امت میں فساد اور تفرقہ کو رائج کرنے کی منصوبہ بندی تھی۔ اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو پھر ”تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے“۔ کے قرآنی ارشاد کو کہاں لے جائیں۔ کیا تقسیم شدہ اور اختلافات کی ماری ہوئی نام نہاد جمعیت نے مشعل راہ بننا تھا؟

پھرفرمایا ”تم رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ مل کر“۔ باجماعت نماز کی فرضیت کے متعلق اس سے بڑھ کر اور کیسا ارشاد کسی کو چاہیے۔ قرآن مجید میں بار بار قیام نماز کا حکم وارد ہوا ہے ادائیگی نماز کا نہیں۔ قیام نماز سے مراد یہی ہے کہ مل کر اور کوشش کرکے جہد مسلسل کے ساتھ اس حکم کی تکمیل کرتے چلے جاؤ۔

پھر مساجد تعمیر کی کرنے والوں کو اجر عظیم کی خوشخبری، مساجد آباد کرنے کی با ربار تلقین اور مساجد برباد کرنے والوں کو وعید کس لئے سنائی گئی۔ ؟ اگر اجتماعیت کی ضرورت صرف شروع کے چند سالوں کے لئے تھی تو اذان کا نظام رائج کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہر روز پنج و قت یہ صدا بلند کرتے ہوئے نما زکی طرف اور بھلائی کی طرف بلاتے جانے کا حکم کس لئے۔ ؟

پھر ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو او ر آپس میں تفرقہ نہ ڈالو“ کا حکم کس لئے۔ ؟ یہ حکم ہرگز ہرگز وقتی نہیں ہے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے۔

ہاں تفریق، تقسیم، اختلافات، پھٹے ہو ئے دلوں کی علامات کفار اور منافقین کے متعلق تو بیان ہو ئی ہیں۔ اہل ایمان کے متعلق ہرگز نہیں۔ اہل ایمان کے لئے بنیان مرصوص اور رحما ء بینھم وغیرہ علامات کا تذکرہ ہوا ہے۔ جو اجتماعیت کی عظیم تر مثالیں، بہترین تعلقات باہمی، اخوت، محبت اور یگانگت کا عمدہ ترین اظہار ہیں۔

پھر قبلہ رخ نماز ادا کرنے کامقصد کسی عمارت کی پوجا کروانا مقصود نہیں بلکہ یک رنگ اور یک رخ اجتماعیت کی غرض سے ہی ایک مقام مقرر فرمایا گیا ہے۔ نماز جمعہ، عیدین اور حج بیت اللہ میں بھی اجتما عیت ہی کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اور ایسی اجتماعیت کی ضرورت صرف شروع کے چند سالوں کے لئے نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ا س کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ نماز باجماعت تحریک عمل، اجتماعیت برقرار رکھنے، نظم و ضبط، مساوات، پابندی وقت، صفائی طہارت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، سوشل میل ملاپ، تعارف باہمی جیسے بے شماراوصاف حمیدہ کے قیام اور معاشرے میں طبقاتی تقسیم ختم کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا۔ تین لوگ بھی ہوں تو باجماعت نما زادا کریں۔ کیونکہ بھڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جوریوڑ سے الگ ہوتی ہے۔ ( ابوداؤد حدیث نمبر548) پھر فرمایا : نماز باجماعت ادا نہیں کرو گے تو دلوں پرمہر لگ جائے گی۔ (ابن ماجہ حدیث نمبر 794)

پھر مکرم ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ”مرتد کی سزا موت۔ مذاہب کے ابتدائی ایام میں ایسا اصول لاگو کیا جانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ اگر ایسی کڑی سزا نہ ہوتی تو لوگ مذہب قبول کرنے اور ا س سے نکل جانے کو مذاق بنا کر رکھ دیتے“۔

اسلام نے تو بہر حال مرتد کی ایسی کوئی سزا بیان کی ہے نہ جار ی کی ہے۔ ابتدائی ایام میں نہ آخر ی وقت میں۔ بلکہ قرآن مجید کفار کی اسی عادت کا ذکر کرتا ہے کہ ان کا طریق یہ تھا کہ صبح ایمان لے آؤ اور شام کو انکار کر دو، تا کہ باقی مسلمانوں کو بھی اسلام سے بد دل کیا جا سکے۔ (سورہ ال عمران ) اگر مرتد کی سزا قتل ہی تھی تو پھر ہر روز صبح و شام قتل غارت کابازار گرم ہونا ضروری تھا۔ ڈاکٹر صاحب تو کیا کوئی بد ترین دشمن بھی ایسی قتل و غارت کی مثالیں تاریخ کے اوراق سے پیش نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جب ایسا کوئی معاملہ تھا ہی نہیں تو شہادتیں کہاں سے ملیں گی۔

مذہبی آزادی پر قرآنی احکام اتنے واضح ہیں کہ ان نصوص صریحہ کے ہوتے ہوئے کسی دوسری تشریح کی ضرورت رہتی ہے نہ کسی من گھڑت واقعہ کی اہمیت۔ فرمایا ”دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔ (بقرہ)

پھر ارشاد ہوا : ”تو کہ دے تیرے رب کی طرف سے حق اور سچ آگیا ہے۔ پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے“ (کہف)

پھر فرمایا ”جو لوگ ایمان لائے، پھر انہوں نے کفر کیا، پھر ایمان لائے، پھر کفر کیا اور پھر اپنے کفر میں بڑھ گئے اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ (نساء)

اگر مرتد کو قتل کر دینا ضروری مان لیا جائے تو ایسے مرتدین کو ایمان لانے پھر انکار کرنے، پھر دوسری دفعہ ایمان لانے پھر انکار کرنے پھر کفر میں بڑھ جانے کی مہلت کیسے مل گئی۔ اور بالآخر سزا بھی خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی۔ کسی خدائی فوج دار کو یہ اجازت نہیں دی کہ لوگوں کے سر قلم کرتا پھرے۔

ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں بیان کردہ دونوں معاملات پر بہت اختصار کے ساتھ بات پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسلام نے روشن خیالی کی مخالفت کی ہے نہ سوچ و بچار پر پہرے بٹھائے ہیں اورنہ ہی علم پر قدغن لگائی ہے۔ بلکہ اسلام ہمیں بار بار حصول علم، غور فکر، اہل علم سے ملاقات، صحبت صالحین کی تلقین کرتا ہے۔ نئے خیالات اورنئی تشریحات وہی مفید ہو سکتی ہیں جو قرآن و سنت کی بنیادی تعلیم اور نصوص صریحہ سے مخا لف نہ ہو ں۔ نئے زاویوں سے ضرور سوچنا چاہیے لیکن نئی روشنی کی آڑ میں دین کی اساس پر حملہ کر دینا لاعلمی کا اندھیرا تو ہو سکتا ہے علم کا نور نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).