جدید معاشرے میں اقلیت کا تصور اور پاکستان


اسی طرح ریاست ہائے امریکہ میں سیاہ فام افراد بھی کچھ عرصہ سے اپنے حقوق کی پامالی کا علم اٹھائے ہوئے ہیں اور اپنے تئیں اس لئے اقلیت قرار دے رہے ہیں کہ ان کے ساتھ اجتماعی رنگ میں امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ اور یہ نعرہ بلند کرتے نظر آتے ہیں کہ سیاہ فام کی زندگی بھی معنی رکھتی ہے۔ جبکہ سفید فام غالب طبقہ اس اثر کو زائل کرتا نظر آتاہے کہ سیاہ فام کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہورہا اور سب انسانوں کی زندگیاں ہی ایک جیسی قدروقیمت کی حامل ہیں۔

دراصل یہی اصل حقیقت ہے کہ جب کبھی کوئی اقلیت اکثریت کے رحم کرم پر ہو اور اسے امتیازی سلوک کا سامنا ہو تو اکثریت ہمیشہ اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش میں رہتی ہے کہ نہ امتیازی سلوک ہے اور نہ ہی کسی کو اقلیت قرار دیا جائے۔ اور تمام ایسے معاملات کو عمومیت اور اجتماعیت کے پردے میں چھپانا چاہتی ہے۔ جبکہ اقلیت اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو سامنے لاتی ہے اور اس طرح اپنے تئیں اقلیت ثابت کرنا چاہتی ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ان تمام امور کا تعلق سیاسی بندوبست سے ہوا کرتا ہے۔ اسے کسی بھی طرح دینیات کے مضمون سے جوڑا نہیں جاسکتا۔

اب اقلیت کے اس مضمون پر روشنی ڈالنے کے بعد ذرا اس موضوع پر پاکستان میں ہونے والی بحث کا جائزہ لیجیے۔ یہ ایک تاریخی اور واقعاتی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے قبل برصغیر کے معاشرے میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں واضح سیاسی تفریق قائم ہوچکی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سیاسی تفریق کی بنیاد مذہب تھی۔ یہاں بھی یہ سوال نہیں تھا کہ مذہب کون سا درست ہے یا نہیں۔ بلکہ محض ایک سیاسی تفریق مذہب کی بنیاد پر بہت زیادہ نمایاں ہوچکی تھی۔

جو قیام پاکستان کی بنیاد بنی۔ وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو اپنی اکثریت کے علاقوں میں بھی اپنے حقوق کا تحفظ مشکل نظر آتا تھا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد جس امر کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ یہ کہ پاکستان کے مسلمان جس سلوک کا شکار ہونے سے بچ گئے ہیں اب وہ سلوک نئے ملک میں کسی کے ساتھ نہ ہو۔ اسی لئے قائد نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں مختصراً یہ واضح کیا تھا کہ اب مذہب کی بنیاد پر کوئی اقلیت نہیں ہوگی۔ سب پاکستانی ہوں گے۔

مگر افسوس کہ قائد کی وفات کے بعد سب سے پہلے جو کام کیا گیا وہ اس اقلیت اور اکثریت کو مذہب کی بنیاد پر بنائے جانے کا تھا۔ یعنی قرارداد مقاصد۔ اس قرارداد میں اس اصول کو تسلیم کرلیا گیا کہ اب پاکستان میں بھی اقلیت ہونے کا باعث مذہب ہوگا۔ جو مسلمان ہوگا وہ اکثریت میں ہوگا اور جو مسلمان نہیں وہ اقلیت شمار ہوگا۔ قائد اعظم نے جو ایک شہریت کی بنیاد پر قومیت قائم کرنے کی کوشش کی تھی اسے ابتداء میں ہی دفن کردیا گیا۔

نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم اقلیتوں کے حقوق کی پامالی میں دنیا میں سر فہرست شمارکیے جاتے ہیں۔ ہم ریاستی سطح پر یہ پراپیگنڈہ کرنا چاہتے ہیں کہ اقلیتوں کو یہاں مکمل آزادی حاصل ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت ہورہی ہے حالانکہ ریاست کا اقلیتوں کو اقلیت قرار دینا ہی اس کی بنیادی غلطی ہے۔ ریاست کا کام تو اقلیتیں ختم کرنا ہوا کرتا ہے لیکن یہاں ریاست خود اقلیتیں بناتی ہے اور پھر ان کے حقوق کی حفاظت کا زبانی دعویٰ کرتی ہے۔

او بھائی اقلیت کا ہونا آپ کی ریاست کی ناکامی کا پیش خیمہ بھی ہے۔ کجا یہ کہ آپ ان کے حقوق کی حفاظت کا راگ الاپیں۔ اب احمدیوں کو ہی لے لیجیے۔ ریاست نے خود ان کو اقلیت قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانتے کہ ہم اقلیت ہیں۔ گویا الٹا دریا بہہ رہا ہے۔ یعنی ہوا تو یہ کرتا ہے کہ ایک گروہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے خود کو اقلیت قرار دلوانا چاہا کرتا ہے۔ اور ریاست اور اکثریت بالعموم اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے اغماض برتا کرتی ہیں کیونکہ اس سے معاشروں اور ریاستوں میں ایک رنگ کی نا انصافی اور امتیازی سلوک کی نشاندہی ہوتی ہے۔

لیکن ہمارے یہاں ایک گروہ کہہ رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اقلیت نہیں کہلوانا چاہتے لیکن ریاست مصر ہے کہ نہیں تم اقلیت ہو اور باقی اکثریت ہیں۔ اور پھر طرفہ تماشا یہ کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ اپنے آپ کو اقلیت دل سے نہیں سمجھتے اس لئے آئین سے باغی ہیں اور ان کو اقلیت والے حقوق بھی نہیں دیے جاسکتے۔ اب بندہ کس دیوار سے اپنا سر پھوڑے کہ اس اندھیر نگری میں ہر بات ہی الٹی ہے۔ اگر احمدی اپنے آپ کو اقلیت نہیں مانتے تو یہ تو ایک اچھی بات ہونی چاہیے کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہورہا۔

لیکن آپ کہتے ہیں کہ نہیں تم مانو کہ تمہارے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے اس لئے خود کو اقلیت مانو۔ اور پھر یہ آئین سے بغاوت کس طرح ہوگئی اس معاملے کی بھی کوئی قانونی یا عقلی شرح نہیں ہوسکتی سوائے اس کے کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ ۔ اور پھر اقلیت والے حقوق کیا ہوتے ہیں؟ گویا آپ کسی اقلیت کو اس کے بنیادی انسانی حقوق دے کر ان پر کوئی احسان کررہے ہیں؟ بنیادی انسانی حقوق ہر انسان کا بحیثیت انسان بنیادی حق ہے خواہ وہ پاکستان میں ہو یا کہیں بھی۔

اس کا تعلق کسی مذہب سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ دنیا کا کوئی آئین یا قانون ان بنیادی حقوق کو پامال نہیں کرسکتا۔ اگر کرے گا تو وہ ظلم اور تعدی کا قانون ہوگا جسے ڈریکونین قانون کہا کرتے ہیں۔ اور ایسے قانون اور آئین کا وہی حال ہوا کرتا ہے جو فرعون کے آئین اور قانون کا ہوا تھا اور جو اس کی ریاست اور حکومت بھی بہا کرلے گیاتھا۔ اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ اقلیتیں تو ایک ریاست میں دیگر اکثریت کے مقابلے میں کچھ ترجیحی سلوک کی حقدار قرار پاتی ہیں۔

یعنی اکثریت کے حقوق کے ساتھ ساتھ مزید کچھ مراعات بھی انہیں دی جاتی ہیں تاکہ وہ اکثریت کے مقابلے میں آسکیں۔ مگر یہاں تو ان کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔ لیکن یہاں اقلیتوں کو کچھ حقوق کا لالی پاپ دے دیا گیا ہے کہ یہی ریاست کی ذمہ داری ہے اور بس۔ گویا اب دنیا بھر کے اصول و ضوابط ایک طرف اور ہماری ریاست ایک طرف۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ریاست پاکستان کی داخلہ، خارجہ، تعلیمی پالیسیاں ملاں پیش کردہ بیانیے کے مطابق طے کی جاتی ہیں۔

وگرنہ ملاں اسے غیر اسلامی قرار دے دے گا کیونکہ اس کے پاس ایسا کرنے کے جملہ حقوق محفوظ کروا دیے گئے ہیں۔ لیکن اگربیرونی دنیا ہمارے ان خود تراشیدہ اور خود ساختہ الٹے سیدھے بیانیے اورموقف کو تسلیم نہ کرے تو یہ یہود و ہنود اور قادیانیوں کی سازشیں قرار پاتی ہیں۔ اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ تصور کیا جائے جاتا ہے۔ گویا ہر معاملے میں ساری دنیا ہی الٹی ہے ایک ہم ہی اس دنیا میں سیدھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2